کرورنا وائرس دنیا بھر میں ایک وبا کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔ اسے ہم مسلمان خدا کی ناراضگی ‘ بڑھتے ہوئے گناہوںاور قدرت کی نافرمانی سے بھی تشبیہ دے رہے ہیں ‘ گھر وں اور مسجدوں میں اس عذاب کو ٹالنے کے لیے دعائیں اور اذانیں بھی دی جارہی ہیں لیکن یہ وباکم ہونے کی بجائے دنیا کے 199ممالک میں پھیل چکی ہے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں دو ہفتے پہلے کویت کے آسمان ٹکڑوں کی شکل میں گھروں پر گرتا ہوا نظر آیا‘ کویت کے لوگ اس خوفناک منظر کو دیکھ کر چیخ وپکار کرکے رب سے معافی مانگ رہے تھے ‘ اس سے ایک ہفتہ پہلے مجھے انگلینڈ سے ایک دوست نے ویڈیو بھجوائی جس میں سرزمین عراق کے افق پر دو عجیب الخلقت قسم کے بڑے دائرے اورسرخ گولے دکھائی دیئے جو پہیئے کی طرح گھوم بھی رہے تھے جسے دیکھ کر لوگ اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے ‘ آسمان پر عجیب و غریب مناظر پہلی مرتبہ دکھائی نہیں دیئے۔ کہنے کامقصد یہ ہے کہ آسمان پر نمودار ہونے والی یہ نشانیاںعذاب الہی کی نشاندھی کرتی ہیں اور قرب قیامت کے آثار بھی کہے جاسکتے ہیں ۔اسلامی تاریخ کے ایک واقعے کا یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتاہوں ۔ ایک بار قحط پڑگیا ۔اس قحط کے اثرات سمرقند سے لے کر بغداد تک اور کوفہ سے لے کر مراکش تک ظاہر ہوئے ۔ خلیفہ ہارون الرشید نے قحط سے نمٹنے کے لیے تمام تدبیریں آزمالیں ۔غلے کے گودام کھول دیئے ‘ ٹیکس معاف کردیئے پوری سلطنت میں حکومت کی جانب سے لنگرخانے قائم کردیئے ۔اس کے باوجود حالات ٹھیک نہ ہوئے ۔ایک رات ہارون الرشید شدید ٹینشن میں تھا اسے نیند نہیں آرہی تھی اس نے اپنے وزیراعظم یحیی بن خالدکو طلب کیا ۔یادرہے کہ یہ خلیفہ کے استاد بھی تھے اور انہوںنے بچپن سے لے کر جوانی تک ہارون الرشید کی تربیت بھی کی تھی ۔ہارون الرشیدنے کہا استاد محترم مجھے کوئی ایسی داستان سنائیں کہ دل کو قرار آجائے ۔یحیی بن خالد مسکرائے اور بولے میں نے ایک داستان پڑھی تھی اگر آپ اجازت دیں تو وہ سنادوں ۔ کسی جنگل میں بندریا سفر کے لیے روانہ ہونے لگی وہ اپنے بچے کو ساتھ نہیں لے جاسکتی تھی وہ شیر کے پاس گئی اور درخواست کی کہ تم جنگل کے بادشا ہ ہو‘ جب تک میں واپس نہ آجائوں میرے بچے کی حفاظت کرنا ۔شیر نے حامی بھر لی اور بندریا کے بچے کو اپنے کندھے پر بٹھا لیا ۔بندریاسفر پر روانہ ہوگئی ۔ایک دن شیر اپنے شکار کے پیچھے بھاگ رہاتھا اچانک آسمان پر اڑتی ہوئی ایک چیل نے غوطہ لگایااور بندریا کا بچہ اپنے پنجوں میں دبوچ کر غائب ہوگئی۔شیر نے بہت دوڑ بھاگ کی لیکن وہ چیل کو نہ پکڑ سکا۔جب بندریاسفر سے واپس آئی تو اس نے اپنے بچے کے بارے میں پوچھا شیر نے شرمندگی سے بتایا اسے چیل اٹھاکر لے گئی ۔بندریا غصے میں بولی تم جنگل کے کیسے بادشاہ ہو۔شیر نے کہااگر زمین کی کوئی آفت تیرے بچے کی جانب بڑھتی تو میں روک لیتا لیکن یہ آفت آسمان سے اتری تھی اور آسمان کی آفتیں صرف آسمان والا ہی روک سکتا ہے ۔
اس بات پر ہمارا پختہ ایمان ہے کہ دنیا میں جتنی بھی آفتیں اور مصیبتیں آتی ہیں وہ رب کی ناراضگی کی بدولت ہی آتی ہیںلیکن دنیامیں کچھ طاقتور اور انسان دشمن ممالک ایسے بھی ہیں جو م اپنی طاقت کے اظہار کے لیے خلق خدا کی تباہی کے بارے میں ہی سوچتے رہتے ہیں ۔ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تو ایک عام سی بات ہوچکی ہے لیکن سائنسی ماہرین کے مطابق کرورنا وائرس کسی سپر طاقت کی حیاتیاتی لیبارٹریزکی پیداوار ہے ۔اس کے باوجودکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی وائرس ‘ جرثومے کو بطور حیاتیاتی ہتھیار استعمال کرنا دہشت گردی یا جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے لیکن دوسری جنگ عظیم کے دوران حیاتیاتی ہتھیار بڑی اہمیت اختیار کرگئے تھے ۔1942ء میں ہی کئی طاقتور ممالک ایسے خطرناک وائرس کی تیاری میں مصروف عمل تھے جن کو انہوںنے اس وقت بھی اپنی فتح کے لیے استعمال کیا۔چونکہ اکیسویں صدی میں عوامی جمہوریہ چین اقتصادی اعتبار سے سب سے بڑی اور مضبوط عالمی طاقت کے روپ میں ابھر رہا تھااس لیے چین کی اقتصادی ترقی کو روکنے کے لیے کوورانا وائرس کا سہارالیا گیا ووہان جو چین کانواں بڑا صنعتی شہر ہے جسے چین میں ریڑھ کی ہڈی قرار دیاجاتاہے ‘اسی شہر کوورانا وائرس کا نشانہ بناکر تین ہزار سے زائد افراد کو نہ صرف موت کی نیند سلا دیا بلکہ اقتصادی اعتبار سے چین ایک صدی پیچھے جاچکا ہے ۔اب چین تو کوورانا وائرس سے نجات حاصل کرچکا ہے لیکن جو ممالک کسی نہ کسی طرح حیاتیاتی وائرس بنانے اور چین میں لانچ کرنے میں شامل تھے اب ان میں یہ وائرس تباہی پھیلاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ‘ امریکی صدر کی یہ بات قابل غور ہے کہ دو لاکھ امریکیوںکی ہلاکت تک روک لینا بھی بڑی کامیابی ہوگی ۔ اب کس ملک کی لیبارٹریز میں یہ وائرس بنا اور کس نے چین میں اسے لانچ کیا۔ حقائق چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ آج وہی وائرس ان کے گھروںکی دہلیز پر جا پہنچا ہے ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024