آٹا چینی بحران پر وزیراعظم رپورٹ منظر عام پر لے آئے،کئی حکومتی شخصیات بھی ملوث
چینی اور آٹا کے ماضی قریب کے بحرانوں کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ، ان بحرانوں کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ وزیراعظم نے پبلک کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چینی کے بحران کے بڑے بینی فشریز وہ تھے جن کا سیاسی اثرورسوخ تھا اور وہ فیصلہ سازی میں بھی شامل تھے۔وزیراعظم عمران خان نے آٹے کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے گندم ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔پاکستان میں جنوری اور فروری میں گندم کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو ہو گئی تھی۔ چینی بارے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی چینی پر دی جانے والی سبسڈی کا بڑاحصہ بااثر شخصیات کے حصے میں آیا ، جہانگیر ترین گروپ نے چینی پر دی جانے والی کل سبسڈی کا 22 فیصد حاصل کیا،وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار کے گروپ نے 35 کروڑ سے زائد، شریف گروپ نے 1 ارب 40 کروڑ جبکہ اومنی گروپ نے 90 کروڑ روپے سے زائد کی سبسڈی حاصل کی۔آٹے کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی بھی آٹا بحران کی بڑی وجہ بنی۔وزیر اعظم کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل نے ٹوئٹ میسج میں کہا ہے کہ انکوائری کمیٹی کی سفارش پر ایک انکوائری کمشن بنا دیا گیا ہے جو فرانزک آڈٹ کر رہا ہے کمشن25اپریل تک یہ آڈٹ مکمل کر کے حکومت کو رپورٹ جمع کرائے گا۔وزیراعظم نے مزید 10شوگر ملزکا فرانزک کرانے کی ہدایت کردی ہے۔
پاکستان میں کئی حوالوں سے کمیشن کمیٹیاں اور بورڈ بنتے رہے، ان میں سے کئی رپورٹس یا سفارشات کبھی سامنے نہ آ سکیں، خصوصی طور پر ایسے معاملات جن میں حکومت یا حکومت سے وابستہ افراد کی طرف انگلی اُٹھ سکتی تھی۔ کئی رپورٹس پر قومی مفادات پر زد پڑنے کے خدشے کا جواز پیش کرتے ہوئے پردہ ڈال دیا گیا۔ ان میں ایک پاکستان کو دولخت کرنے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ بھی شامل ہے۔ یہ رپورٹ سرکاری طور پر کبھی سامنے نہیں آ سکی۔ ایبٹ آباد کمشن رپورٹ بھی ماضی کی گرد میں دب رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ سے پیوستہ دور میں یو این او سے بینظیر بھٹو قتل کیس کی انکوائری کرائی گئی۔ اس کی رپورٹ بھی منظر عام پر نہیں آئی۔ لیاقت علی خان ، قتل اور جنرل ضیاء الحق اور ان کے 30 ساتھیوں کی جہاز کریش میں شہادت کے حوالے سے شواہد کبھی قوم کے سامنے نہیں آ سکے۔
آٹا اور چینی کے بحران پر وزیر اعظم عمران خان نے کمیٹی بنائی تو ماضی کے تناظر میں قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ اول تو کمیٹی رپورٹ کی تیاری میں اس قدر تساہل سے کام لے گی کہ جب تک رپورٹ مرتب ہو گی لوگوں کے حافظے سے یہ بحران محو ہو چکا ہو گا اور اگر رپورٹ بروقت بن بھی گئی تو حکومت اسے جاری کرنے کا رسک نہیں لے گی کیونکہ اس بحران میں کچھ وزرا بیوروکریٹس اور مشیروں کے نام لئے جا رہے تھے۔ اول تو رپورٹ تاخیر کا شکار نہیں ہوئی دوسرے وزیر اعظم عمران خان نے ماضی کی روایات توڑتے ہوئے قطع نظر اس کے کہ اس رپورٹ سے ان کو سیاسی نقصان ہو سکتا ہے بڑی جرأت سے رپورٹ میڈیا کو جاری کر دی۔
ذخیرہ اندوزی آٹے چینی کی ہو یا کسی بھی چیز کی اس میں براہِ راست حکومتی شخصیات اور بیوروکریسی ملوث نہ ہو تو بھی کہیں نہ کہیں ان کا تساہل اور غفلت کا عمل دخل ضرورت ہوتا ہے۔ کسی کی غفلت اور نااہلی سے ایسا بحران پیدا ہو جائے جس سے ایک طبقے کو فاقہ کشی سے دوچار ہونا پڑے، لوگوں کی زندگی کے لالے پڑ جائیں ، ایسے ذمہ داران کے خلاف تادیبی کارروائی ضروری ہے۔ اگر بحران کسی نے منافع خوری کے لیے پیدا کیا تو یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ جو دہشتگردی سے کم نہیں۔ ایسے لوگوں کو ہر صورت عبرت کا نشان بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر آج کے قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے تو قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ جو لوگ ایسی قانون سازی کی مخالفت کریں وہ خود بخود قوم کے سامنے ایکسپوز ہو جائیں گے۔
قوم ہمیشہ ذخیرہ اندوزوں ، ناجائز منافع خوروں اور مافیا کے خلاف واویلا کرتی ہے۔ ہر حکومت کی طرف سے ایسے لوگوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے اعلانات ہوتے ہیں مگر نتیجہ آج تک صفر جمع صفر برابر صفر ہی نکلا ہے۔ عمران خان نے جس دلیری سے اور دوٹوک انداز میں رپورٹ جاری کر دی ، امید کی جا سکتی ہے کہ بحران میں ملوث لوگوں کو کسی صورت معاف نہیں کریں گے۔ عمران خان ایسا کر گزرتے ہیں تو قومی ہیرو کا درجہ پائیں گے اور پاکستان مستقلاً ذخیرہ اندوزوں سے نجات حاصل کر لے گا۔ ادارے اہمیت رکھتے ہیں۔ شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں، عمران خان نے ہمیشہ کرپشن کے حوالے سے زیرو ٹالرنس دکھائی۔ جس پر انہیں عوامی سطح پر پذیرائی ملی۔ سینٹ انتخابات میں انہوں نے خیبر پی کے سے تعلق رکھنے والے بیس ارکان کر کرپشن کے الزام پر نکال باہر کیا تھا۔
جن لوگوں کے نام اب انکوائری میں سامنے آئے ہیں ان کو یقیناً صفائی کا موقع ملے گا۔ اگر ان میں سے کسی نے کچھ نہیں کیا تو وہ سرخرو ہو کر نکلے گا مگر یہ ممکن نہیں کہ آٹے کے بحران نے خود بخود سراٹھا لیا ہو، چینی پر اپنے آپ منافع کروڑوں روپے کی صورت میں ان کے اکائونٹس میں آ گیا ہو۔ جہانگیر ترین اور مونس الٰہی نے اپنی طرف سے وضاحت جاری کی ہے دیگر کو بھی ایسی وضاحتوں کا حق حاصل ہے تاہم دودھ ا دودھ اور پانی کا پانی اس حوالے سے کیس چلنے کے بعد ہی ہو گا۔ یہ کیس ممکنہ طور پر کمیشن کی رپورٹ کے بعد بن سکے گا۔