غزوہ حنین میں کئی مرحلوں کے گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی ۔ایک کثیر مالِ غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آیا ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیفِ قلب کی خاطر مکہ کے اُن افراد کو بڑی فیاضی سے نوازا جنہیں ابھی حال ہی میں قبول اسلام کی سعادت حاصل ہوئی۔لیکن اس فیاضی کے ساتھ آپ نے افراد کی تربیت کا بھی بھر پورخیال رکھا ۔حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو کچھ عطافرمایا۔حکیم بن حزام فرماتے ہیں کہ میں نے پھر سوال کیا حضور اکرم ﷺنے پھر عطافرمادیا ، میں نے تیسری مرتبہ بھی مانگا تو آپ نے عنایت فرمادیا۔انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے بھی مجھے عطافرمایا اور میرے سوال کرنے پر مجھ پر اور نوازش فرمائی۔ان میں سے کون سی عطا زیادہ بہتر ہے۔حضور اکرم ﷺنے فرمایا :پہلی (جوبن مانگے )تھی۔
پھر ارشادفرمایا :’’اے حکیم بن حزام !یہ مال سرسبز وشاداب اورمیٹھی چیز ہے یہ دیکھنے میں خوشنمااورکھانے میں لذیذ محسوس ہوتا ہے۔جو اسے دل کی سخاوت کے ساتھ لے گااور اسے اچھے طریقے کے ساتھ استعمال کریگا۔اس کیلئے اس مال میں برکت دی جائے گی اور جو دل کی لالچ کے ساتھ لے گااوراسے اچھے استعمال میں نہیں لائے گا۔اس کیلئے اس مال میں برکت نہیں ہوگی ۔اوریہ اس(مریض) آدمی کی طرح ہوجائیگا جو مسلسل کھاتا جارہا ہو۔مگر اس کاپیٹ نہ بھر رہا ہو۔(یاد رکھو!) اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ۔حکیم بن حزام نے پوچھا یا رسول اللہ ! آپ سے مانگنے میں بھی یہی بات ہے ۔فرمایا: ہا ں مجھ سے مانگنے میں بھی یہی بات ہے ۔انھوں نے کہا:اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ۔اب میں آپکی اس نوازش کے بعد کبھی بھی کسی سے کچھ نہیں لوں گا۔اسکے بعد حضرت حکیم بن حزام نے نہ تو مقرر ہ وظیفہ قبول کیا اور نہ ہی کوئی عطیہ۔حضرت عروہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انھیں کچھ دینے کیلئے بلایا تو انھوں معذرت کرلی ۔اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں کچھ دینے کی کوشش کی تو انھوں نے اسے قبول نہیں کیا۔حضرت عمر فرمایا کرتے تھے ۔اے اللہ !میں تجھے اس بات کا گواہ بنا تا ہوں کہ میں حکیم کو بلاتا ہوں تاکہ وہ اس مال میں سے اپنا حصہ لیں لیکن وہ ہمیشہ انکار کردیتے ہیں۔(بخاری، مسلم،ترمذی)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024