پچھلے ہفتے کا قصہ ہے کہ میںنے سونے کی تیاری کی توا چانک اذانوں کی گونج سنائی دی۔گھڑی پر نظر ڈالی تو رات کے دس بجے تھے۔اسی وقت سوشل میڈیا پر میںنے اس کیفیت کی طرف اشارہ کیا۔ کسی نے فوری سوال پوچھا کہ کیا کرونا کی وبا اذانوں اور دعائوں سے ٹل سکتی ہے۔ میںنے جواب میں لکھا کہ بچپن میں جب کبھی چار چھ روز لگا تار بارش ہوتی تو مسجد سے بھی اذانیں ہوتیں اور گھروں کی چھتوں سے بھی اذانیں سنائی دیتیں۔
دعائوں کے اثرات پر کچھ واقعات پڑھ لیجئے۔ظہیر الدین بابر کا بیٹاہمایوں سخت بیمار پڑا توبابر نے دعا کی کہ اللہ میری زندگی میرے بیٹے کو لگا دے۔ یوں بابر چار سال کے اقتدار کے بعد اللہ کو پیارا ہو گیاا ورہمایوں شہنشاہ ہند بن گیا۔ اور اگلے گیارہ برس تک بر صغیر کا حکمران رہا۔
لاہور میں اس وقت کے چیف منسٹر میاں نواز شریف کی دعوت پراتفاق ہسپتال کی افتتاحی تقریب میں جنرل ضیاالحق نے جوش خطابت میں کہا کہ اللہ ان کی زندگی نواز شریف کو لگا دے۔ یہ تقریر ایک بہت بڑے اجتماع میں کی گئی۔ جنرل ضیا الحق چونسٹھ برس کی عمر میں ہوائی حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ نواز شریف ان کے بعد ایک بار مزید پنجاب کے وزیرا علی بنے اور تین بار ملک کے وزیر اعظم بنے ۔ اب وہ ستر برس کی عمر کو پہنچ گئے ہیں۔اور جنرل ضیا کو دنیا سے گئے بتیس برس ہو چلے ہیں ۔
محمد رفیق ڈوگر ایک عرصے تک نوائے وقت سے منسلک رہے۔۔ ایک بار ان کے گھٹنے میں درد اٹھا۔ وہ شیخ زاید ہسپتال گئے جہاں ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد کہا کہ کینسر آخری اسٹیج کا ہے اور آپ کی زندگی بچانے کے لئے ٹانگ کاٹنی پڑے گی۔ رفیق ڈوگر صاحب نے پوچھا کہ کیاا ٓپ کے پاس اس کینسر کا ٹانگ کاٹنے کے سوا کوئی اور علاج نہیں ۔ ڈاکٹروںنے نفی میں سر ہلایا۔ رفیق ڈوگر نے کہا کہ جس خدا نے یہ بیماری لگائی ہے میں اسی سے رجوع کروں گا۔ رفیق ڈوگر گھر گئے ،خدا سے دعا کی کہ تو بیماری لگانیوالا ہے اور تو ہی شفا دینے والا ہے۔میرا بھروسہ آپ پر ہے۔ اس کے بعد وہ ایک ایسے کام میں لگ گئے جو انہوںنے کبھی صحافتی زندگی میں سوچا تک نہ تھا، وہ سیرت نبوی ﷺ لکھنے بیٹھ گئے۔ پہلی جلد لکھ لی تو پھر چیک اپ کے لئے شیخ زاید ہسپتال گئے،۔ ڈاکٹروں نے معانہ کے بعد کہا کہ اب کینسر کا نام ونشاں تک نہیں،یہ سارا قصہ رفیق ڈوگر نے اپنی سیرت کی کتاب الا مین کی پہلی جلد کے دیباچے میں لکھا ہے۔ یہی رفیق ڈوگر اب تفسیر قرآن پاک لکھ رہے ہیں، میںنے سیرت کی کتاب پڑھی ہے۔ جدید اسلوب میں سیرت پر ایسی کتاب مارکیٹ یا لائیبریریوں میںنہیں ملتی۔ تفسیر بھی خدا کرے، اس سے بڑھ کر ہو۔
سجاد میر صاحب کو ہر کوئی جانتا ہے، وہ بھی نوائے وقت کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، تجزیہ کار ہیں اور پائے کے اینکر۔ ایک بار انہیں ہیپاٹائٹس ہوا، ہر طرح کا علاج کر دیکھا، شفا کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ آخر کسی نے انہیں بتایا کہ مولانا شاہ احمد نورانی اس کے لئے دم کرتے ہیں اور یقینی شفا ملتی ہے۔ سجاد میر نے ان سے رابطہ کیا اور حاضری کے لئے وقت مانگا، نورانی صاحب ہر کسی کی عزت نفس کاا حترام کرنے والے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کے پاس خود چل کر ا ٓئوں گا۔ وہ آئے۔ ایک دھاگہ طلب کیا۔ کچھ پرھتے جاتے تھے اور دھاگے میں گرہیں لگاتے جاتے تھے۔ یہ دھاگہ انہوںنے سجاد میر کو دیا کہ وہ ا سے گلے میں پہن لیں یا بازو پر۔ اللہ کرم فرمائے گا۔ میںنے یہ قصہ چند روز پہلے سجاد میر صاحب سے سنا، ان کا کہنا ہے کہ جونہی میںنے دھاگہ پہنا ،مجھے یوں لگا کہ بیماری دور ہو چکی ہے۔ چند ہفتوں بعد ٹیسٹ کرائے تو ہیپا ٹائٹس کافور ہو چکا تھا۔
انہی سجاد میر کا کہنا ہے کہ ممتاز صحافی ممتاز اقبال ملک جو افواج پاکستان کے میگزین ہلال کے بھی ایڈیٹر رہ چکے ہیں ان کے بھائی راحت ممتاز ملک نے ان سے ذکر کیا کہ وہ جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں، درمیان میں رک جاتا ہے۔سجاد میر نے انہیں مولانا حسین احمد مدنی کے سیکرٹری سے ملوایا۔ وہ ایک عمل کرتے تھے اور سب کے سامنے کرتے تھے۔انہوںنے فرمایا کہ یہ صاحب اپنی کاٹن کی قمیص لائیں۔ اسے فرش پر رکھ کر ماپا گیا۔ پھر مدنی صاحب نے دم شروع کیا،۔اور کہا کہ قمیص کی پھر پیمائش کریں۔ یہ دو انچ لمبی ہو گئی تھی۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ پر عملیات کی وجہ سے رکاوٹ ہے مگر اب آپ یہ قمیص دوبارہ پہنیئے اور جو کام کریں گے ، اس میں اللہ کامیابی عطا کرے گا۔ چنانچہ چند ہفتے بعد ہی ممتازملک کے بھائی نے کہا کہ ان کی راہیں کشادہ ہو گئی ہیں۔
میں اپنا واقعہ بھی بیان کر دوں۔ ستر برس قبل کی بات ہے۔ میں اڑھائی تین سال کی عمر کا تھا۔میرے ایک بڑے بھائی سخت بیمار پڑ گئے۔والد عبدالوہاب صاحب نے پریشانی میں ایک رات تہجد ادا کی اور اللہ سے دعا مانگی یا باری تعالی۔ اس کی بیماری مجھے لگا دیں اور میری عمر اسے لگا دیں۔ یہ قبولیت دعا کی گھڑی تھی۔ صبح تک بھائی صاحب کا بخار اتر رہا تھا اور والد صاحب بخار میں پھنک رہے تھے۔ انہوںنے سارا ماجرا میری والدہ صاحبہ کو بتایا۔ وہ بے چاری سر پیٹ کر رہ گئیں کہ دعا ہی کرنی تھی تو بیٹے کی صحت کی کرتے، چند روز بعد میرے والد صاحب کا بھر پور جوانی میںجنازہ اٹھا۔
میں دعائوں کی تاثیر کاا ور ثبوت کہاں سے لائوں۔
ایک عقل مند کا قول ہے کہ مسئلے اوراس کے حل میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا انسان کے ماتھے اور مصلے کا۔
٭…٭…٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38