پیر ‘ 12 ؍ شعبان 1441ھ‘ 6؍ اپریل 2020ء
بھارت میں مسلمانوں کو کرونا کے نام پر ہراساں کیا جانے لگا
بھارت میں حکومت کسی کی بھی ہو۔ انہیں مسلمانوں سے خدا واسطے کا بیر رہتا ہے۔ کانگریس ہو یا بی جے پی سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ کسی سے خیر کی امید نہیں۔ کانگریس کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کم ہوا۔ فسادات میں جلائو گھیرائو میں شامت مسلمانوں کی آتی رہی۔ ان کی پوش آبادیاں ، فیکٹریاں اور کارخانے جلتے رہے۔ اچھے بھلے مسلمان غربت و افلاس کا شکار ہوئے۔ اس کے باوجود جب دیکھا مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے کم نہیں ہو رہی تو کانگریس دور میں ہی آبادی کم کرنے کے نام پر صرف اور صرف مسلمانوں کو جبری نس بندی کے لیے منتخب کیا گیا۔ کسی ہندو کی نس بندی نہیں ہوئی۔ اب یہی کام بی جے پی کی حکومت کر رہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہ براہ راست مسلمانوں کا قتل عام کر کے ان کی آبادیاں جلا کر انہیں ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اب کروناکے وبائی دور میں ہی دیکھ لیں بھارتی پولیس کو پورے بھارت میں ہندوئوں کی غلیظ کچی آبادیاں اور بستیاں نظر نہیں آ رہیں۔ سارا زور مسلمانوں کی غریب آبادیوں اور گنجان آباد علاقوں پر دیا جا رہا ہے۔ وہاں پولیس والے مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر مار پیٹ کر انہیں کرونا وائرس کے پھیلائو کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ مسلمان نہ تو کتے پالتے ہیں نہ سور۔ نہ ان کے ہاں بندروں کو تقدس کا درجہ حاصل ہے۔ یہ کتے سور اور بندر ہندو آبادیوں کی سوغات ہیں اور کرونا پھیلانے میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مگر کیا مجال ہے جو کسی ہندو آبادی کو یا ان کتے سور اور بندروں کو کرونا کے نام پر ہراساں کیا گیا ہو۔ہندو آبادی والے علاقے میں سرکاری کرونا وائرس کیخلاف کام کرنے والی ٹیموںکو مار مار کر ہندو بھگا رہے ہیں۔ مگر کیا مجال ہے جو ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہو۔
پی ٹی وی فیس 35 سے 100 روپے ماہانہ کر دی گئی
اس پریشانی کے دور میں بھی حکومت کے معاشی ماہرین عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے سے باز نہیں آ رہے۔ یہ شاطر دماغ ایسے ایسے نت نئے طریقوں سے عوام کو لوٹنے کی تراکیب نکالتے ہیں کہ عوام کو خبر بھی نہیں ہوتی اور ان کی جیب خالی ہو جاتی ہے۔ پی ٹی وی اب دور ماضی کی خوبصورت مثال بن چکا ہے۔ نت نئے چینلوں نے اسے مقبولیت کی دوڑ میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس کے تفریحی پروگراموں کا معیار بھی ایسا نہیں کہ شائقین خدا کی بستی ، انکل عرفی جھوک سیال،اندھیرا اجالا وارث یا نیلام گھر کی طرح اب کوئی ڈرامہ یا پروگرام دیکھنے کے لیے پی ٹی وی لگائیں۔ رہی بات خبروں کی تو اسے لوگ سرکاری خبرنامہ کہہ کر دوسرے چینلز لگا لیتے ہیں اب باقی رہ ہی کیا جاتا ہے۔ پی ٹی وی دیکھنے کے لیے اب ٹی وی فیس بڑھانے سے حکومت سالانہ 21 ارب روپے بیٹھے بٹھائے کمائے گی مگر کیا مجال ہے جو اس میں سے ایک ارب روپیہ بھی پی ٹی وی کی حالت درست کرنے پر خرچ ہو۔ ملازمین کی فوج ظفر موج کو تنخواہ سے غرض ہوتی ہے۔ پروگراموں کا معیار جائے بھاڑ میں۔ اس کی کسی کو فکر نہیں۔ مقابلے کی دوڑ میں پی ٹی وی نجانے کہاں گم ہو چکا ہے۔ پروگراموں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ’’زمین جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ والی پالیسی پرانی نشانی بنا کر ابھی تک گلے سے لگائی ہوئی ہے۔
کرونا کا تعلق کسی فرقے یا مذہب سے جوڑنا احمقانہ پن ہو گا: فواد چودھری
بے شک کرونا کو کسی مسلک یا مذہب سے جوڑنا بڑی حماقت ہے۔ یہ بیماری یا وبا صرف انسان کا شکار کرتی ہے۔ کسی کو لگنے سے قبل اس کی قومیت ، ذات یا عقیدہ نہیں پوچھتی۔ اس لیے اِدھر اُدھر کی ہانکنے کی بجائے اس کے سدباب پر توجہ مذکور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران سے آنے والے زائرین ہوں یا تبلیغی جماعت کے لوگ ان میں کرونا وائرس کی موجودگی کی رپورٹس زیادہ ہیں تو ان کو نقل و حمل اور سماجی رابطوں پر پابندی کے قوانین پر عمل کر کے انسانوں کی جان بچانے کی کوشش تو بہرحال کرنا ہی ہو گی۔ کسی گروہ کے نام پر جذبات ابھارنے کی بجائے ان کی جان بچانے کی کوششوں میں معاون بنیں یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ہمارے ایک کرم فرما محمد نعیم نے بڑی دلچسپ اور خوبصورت بات کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ ہمیں سوشل یعنی سماجی دوری نہیں بلکہ فزیکل یعنی جسمانی دوری کے الفاظ استعمال کرنا چاہئے کیونکہ اس وقت سماجی طور پر یکجا اور متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ پوری قوم مل کر اس آفت کا مقابلہ کرے۔ البتہ اس کرونا وائرس سے بچنے کے لئے ہمیں ایک دوسرے سے جسمانی طور پر دور رہنا ہو گا فاصلہ برقرار رکھنا ہو گا۔ ہمیں جسمانی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپنے اردگرد موجود غریبوں ، بے روزگاروں کی مدد بھی جاری رکھنی ہو گی تاکہ وہ لاک ڈائون کے منفی اثرات سے محفوظ رہیں۔ ان کی روزی روٹی بھی چلتی رہے۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اور ثواب بھوکوں کو کھانا کھلانے ، غریبوں اور تنگ دستوں کی مدد کرنے میں ہے۔ اس لئے جسمانی طور پر کرونا سے بچنے کے لئے فاصلہ برقرار رکھیں مگر دوسروں کی مدد کے لئے سماجی رابطے برقرار رکھیں۔
ریلیف پیکج کے ثمرات عوام تک پہنچانے کی ضرورت
اس وقت ملک بھر سے آٹے کے ساتھ دیگر اشیائے خوردونوش کی شارٹیج کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں۔ حکومت پر عزم ہے کہ کسی چیز کی قلت نہ ہو مگر ناجائز منافع خور بھی ٹھان چکے ہیں کہ اس تکلیف دہ حالات میں بھی وہ حرام خوری سے باز نہیں آئیں گے۔ حکومت کے مطابق سب کچھ وافر مقدار میں موجود ہے مگر آٹا مل مالکان کہتے ہیں گندم نہیں مل رہی پسوائی کس کی کریں۔ سبزی والا روتا ہے کہ سبزیاں نہیں آ رہیں۔ دکاندار گھی، چینی، دال، چاول نہ ملنے کا رونا روتے منڈی والے اور آڑھتی مال روک کر مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔ یوں اسی افراتفری میں گلشن کا کاروبار چل رہا ہے۔ ہر ایک یہ نہیں وہ نہیں کا رونا رو رہا ہے۔ اس سارے ڈرامے میں شہری حیران و پریشان ہیں۔ حکومت پے درپے ریلیف پیکجز کا اعلان کرتی پھر رہی ہے تو ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچ رہے۔ موجودہ حالات میں دنیا بھر میں تاجر دکاندار ازخود قیمتوں میں کمی کرے لوگوں کو ریلیف دے رہے ہیں حکومتیں گھروں کی دہلیز پر امدادی اشیاء پہنچا رہی ہیں۔ ہماری حکومت بھی اب مصلحت کی چادر اتار کر ان ناجائز منافع خوروں پر ہاتھ ڈالے ان کے گھروں، گوداموں اور فیکٹریوں کے دروازے توڑ کر سٹاک شدہ مال نکال کر لوگوں کی دہلیز پر پہنچانے کا بندوبست کرے۔ غریب اور مستحق لوگوں کو اس تکلیف دہ گھڑی میں تنہا نہ چھوڑا جائے۔حکومت مہنگائی کنٹرول کر کے قیمتوں میں ریلیف دے کر ان کی دعائیں بھی لے سکتی ہے اور آئندہ الیکشن میں ووٹ بھی۔
٭٭٭٭٭٭