کرونا پر حکومتی فعالیت اور عدالتی افادیت

کرونا وائرس نے پوری دنیا کو جس طرح اپنے بے رحم پنجوں میں جکڑا ہواہے ۔ اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی کہ کسی بھی وباء نے اس طرح اچانک پوری دنیا کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہو۔ کرونا وائرس پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ کوئی اسے کسی کی سازش، کوئی قدرت کی طرف سے انسانوں کی آزمائش اور کوئی اسے انسان کی طرف سے فطرت کیساتھ جنگ کا شاخسانہ قرار دیتا ہے۔ اس آفت کی جو بھی وجہ اور سبب ہو ہمیں بہر صورت سر بسجود ہو کر تائب ہو نا ہے۔ کردہ گناہوں اورو نا کردہ خطاؤں پر شرمندگی و ندامت کا اظہار کرنا ہے۔
انہ ھو التواب الرحیم
بلا شبہ وہ بندوں کی توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اے اللہ! ہماری خطائیں معاف فرما دے اور ہماری توبہ قبول فرمادسمبر کے آخرمیں چین سے اٹھنے والے کرونا وائرس نے بڑی تیزی سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کی ہلاکت خیز ی کا کسی ملک کو آج کسی کو کل ادراک ہوا۔ کسی نے فوری طور پر تدارک کی کوشش کی ، کسی نے رعونت سے اس وبا کو نظر انداز کر دیا۔ اسے چین کے غیر انسانی رویوں سے تعبیر کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ مگر فطرت ایک اٹل حقیقت ہے۔ انسان زہر کھائے گا تو اس کے اثرات ہونے ہی ہیں۔ تالاب میں کودنے سے بھیگ جانا فطری امر ہے۔ آگ کا کام جلانا ہے۔ آوارہ وائرس کی زد میں آنے والے ہر شخص پر اس نے اثر انداز ہونا ہے، اور ہو رہاہے ۔ آج کرونا وائرس کو سامنے آئے تین ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ عالمی سطح پر اس کی تباہ کاریوں کا گراف بڑھتا جا رہا ہے۔ دو دن قبل کے اعدادو شمار کے مطابق ۱۱لاکھ سے زائد افراد اس کی زد میں آ چکے ہیں ۔ مرنے والوں کی تعداد60ہزار سے متجاوز ہو گئی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے 11مارچ کو اسے عالمی وباء قرار دیا گیا۔ یوں لگتا ہے اس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے چپ سادھ لی ہے۔ اس کے عہدیداروں نے11مارچ کو جینوا میں پریس کانفرنس کر کے دنیا کو خبر دار کرنے ہی کو اپنی ذمہ داری گردانا۔اس ادارے کے پاس وسائل کی کمی نہیں۔ بہت سے ممالک انسانیت کی بقا کے لیے بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ڈبلیو ایچ او کو دنیا بھر سے کرونا کے تدارک کے لیے ایک مربوط منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت تھی جو اب تک تو سامنے نہیں آئی۔جبکہ ہر ملک اپنے طور پر خود کو "قرنطینہ" کئے ہوئے اور آئسولیشن میں رکھے ہوئے ہے۔ اس مہلک وباء کی اب تک کوئی میڈیسن بھی دستیاب نہیں ہے۔ اس حوالے سے بھی ڈبلیو ایچ او سرگرم دکھائی نہیں دیتا۔ ہر ملک اپنے طور پر کرونا سے نمٹنے کی تدبیر کر رہاہے،ویکسیئن بنانے کیلئے کوشاں ہے ۔کرونا کی تباہ کاریوں کے سامنے اٹلی، امریکہ، برطانیہ،سپین جیسے ترقی یافتہ ممالک بے بس نظر آ رہے ہیں۔ان سے مریضوں میں اضافہ رُ ک رہا ہے نہ ہلاکتوں میں کمی آرہی ہے۔ترکی اور پاکستان جیسے ممالک نے اس مرض کا ادراک کر کے بروقت اقدامات کئے اور اسے کسی حد تک کنٹرول کر لیا۔چین اس حوالے سے رول ماڈل ثابت ہوا ہے۔ امریکہ کی طرف سے پہلے چین کو وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیاگیا۔ اب اس پر ہلاکتیں چھپانے کا الزام لگا دیا۔ چین کی طرف سے امریکہ پر کرونا ایک سازش کے تحت ووہان میں پہنچانے کا بھی الزام لگایا جا چکاہے۔بلیم گیم کے دوران ہی امریکہ نے چین سے کرونا کے تدارک کے لیے تعاون کی درخواست بھی کی جس کا چین نے مثبت جواب دیا۔
کسی شہ دماغ نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو ایک سازش کا رنگ دے کر دنیا کو افسانہ سنانے کی کوشش کی۔ کہا گیا اسرائیل کے پاس اس کی ویکسین ہے۔ بقول اسرائیل وہ صرف اسی ملک کو ویکسین دے گا جو اسے تسلیم کرے گا۔ اس فقرے نے افسانے کے اندر کی حقیقت کوافشا کر دیا ۔دنیا میں پاکستان سمیت آخر اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والے ممالک ہیں کتنے؟۔وہ انکو ویکسیئن نہ دے باقیوں کو تو دے اور سب سے پہلے اپنے مریض ٹھیک کرے۔برطانیہ اور امریکہ تو اس کی وجۂ تخلیق یعنی مائی باپ ہیں اور ان دو ممالک میں آج بھی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔
ایک بھی ذی روح کا دنیا سے اٹھ جانا المیے سے کم نہیں۔ پاکستان میں کرونا سے اب تک60افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ مریضوں کی تعداد تین ہزار کے قریب ہے۔ اُدھر ترقی یافتہ ایک ایک ملک میں روزانہ ایک ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ ان میں سے کئی کی آبادی بھی پاکستان سے کم اور جدید طبی سہولتیں بھی دستیاب ہیں۔ پاکستان میں مریضوں کے صحت یاب ہونے کی شرح بھی حوصلہ افزاء ہے۔ڈیڑھ سو سے زائد لوگ اب تک صحت یاب ہو چکے ہیں۔
صوبوں کو اپنے طور پر کرونا کے کنٹرول کے لے اقدامات اٹھانے کی اجازت ہے۔ مرکزی حکومت پاک فوج کے ساتھ مل کر پورے ملک کے لیے لائحہ عمل مرتب کرتی ہے۔ وزیر اعظم سارے معاملات کی خود نگرانی کرتے اور پوری طرح فعال ہیں۔ اس معاملے میں چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدلیہ بھی اپنا ہر ممکن کردار ادا کر رہی ہے۔لاک ڈاؤن کے باعث ہر ادارہ سوائے ناگزیریت کے حامل اداروں کے بند ہے۔ کاروبار جام ہیں۔ انسانی زندگی رُکی اور تھمی تو نہیں ہے، البتہ سُست ضرور ہو گئی ہے۔ حکومت کی طرف سے ضروری اقدامات انسانی صحت کی حفاظت کے لیے کئے گئے جارہے ہیں ،وگرنہ دوسری صورت میں انسانی المیے سے دوچار ہونا پڑ سکتا تھا۔
عدالتوں کو بند کرنے کی تجویز دی گئی۔ جس سے فاضل چیف جسٹس گلزار احمد نے اتفاق نہیں کیا۔ممکنہ حد تک کم سے کم عملے کے ساتھ عدالتیں فعال و متحرک ہیں۔بلا شبہ کوئی بھی معاشرہ انصاف کے بغیر نہیں چل سکتا۔ عدلیہ انصاف کی فراہمی کا بڑا اور مؤثر پلیٹ فارم ہے۔ اسے بند کرنے کا مطلب انصاف کے دروازے بند اور ظلم کے دروازے کھولنا ہے۔ عدلیہ نے آج ان نازک حالات میں اپنا کام جاری رکھتے ہوئے اپنی مسلمہ افادیت ثابت کر دی ہے۔ہفتے کے روز حکومت کی طرف سے آنے والے دِنو ں میں کورونا وائرس کے پھیلائو سے متعلق اندازوں پر مشتمل جو فہرست دی گئی ہے واقعی تشویش انگیز ہے ۔ اگر عدالتِ عظمیٰ کام نہ کر رہی ہوتی ، تو یہ اعداد و شمار وباء کے حجم اور اُس کی روک تھام سے متعلق حکومتی اقدامات کی تفصیل کیسے سامنے آتی؟اب فاضل چیف جسٹس گلزار احمد کے فیصلے اور دور اندیش کی افادیت سامنے آگئی ہے۔انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیاہے کہ ریاست کا یہ اہم ستون (عدلیہ ) کوروناوائرس کے خلاف جنگ میں دوسرے دونوں ستونوں ، مقننہ اور انتظامیہ سے آگے ہے۔ ورنہ 50ہزار کے اعداد معاشرے میں افراتفری پھیلانے کے لئے کافی تھے ۔ بہر کیف سپریم کورٹ کی فعالیت نے عوام کی تشویش اور پریشانی کو کم کر کے اُس کی جگہ اطمینان پیدا کر دیا ہے ، کہ عدالت عظمیٰ بھی کورونا کے خلاف جنگ میں پیش پیش ہے۔ آفت کی اس گھڑی میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی انصاف سے وابستگی قابلِ داد ہے ، یقیناً عدالتیں فعال رہنی چاہئیں فریادیوں کو انصاف ملتا رہنا چاہیئے ۔آج کم و بیش پوری دنیا حالت جنگ میں ہے چیف جسٹس گلزار احمد کے عزائم کو دیکھ کر دوسری جنگِ عظیم میں چرچل کا وہ تاریخی مقولہ یا آگیا ہے کہ اگر (برطانیہ میں ) عدالتیں کام کر رہی ہیں تو انگلستان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا! خدائے بزرگ و برترہمیں عالم اسلام اور اقوامِ عالم کو کرونا سے جلد نجات عطا فرمائے۔