آپ اسے شاعرانہ مبالغہ کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں ؟
؎قیامت سے بہت پہلے قیامت ہم نے دیکھی ہے
تیرا مل کر بچھڑ جانا قیامت اور کیا ہوگی
لیکن آج دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا قیامت سے بہت پہلے قیامت کا منظر پیش کر رہی ہے ۔ دوا دارو، تعویذ دھاگہ ، دم درود اور کالا علم بھی ، سبھی ا س کورونا وائرس کیلئے ناکافی ٹھہرے ہیں۔ سرکار کی جانب سے ایک ہی علاج کافی و شافی تجویز ہوا ہے کہ کوئی بندہ بشر گھر سے باہر نہ نکلے ۔ سو شہر بھر میں ایک مکمل لاک اپ کا سماں ہے ۔ اس کورونا وائرس کی بچوں اور بوڑھوں پر زیادہ نظر ہے ۔ اسی لئے اس بوڑھے کالم نگار کو بیوی بچے گھر سے باہر نکلنے نہیں دے رہے ۔ ڈرائیور کو بھی لمبی چھٹی پر بھجوا دیا گیا ہے ۔ اسطرح گھر سے باہر نکلنے کے سبھی امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔ اخبارات کا پلندہ باہر لان میں پڑا رہتا ہے ۔ انہیں بیڈ روم میں لانے کی اجازت نہیں۔ اک تجویز یہ بھی زیر غور ہے کہ ان پر خوب گرم استری پھیر کر انہیں کورونا فری کر لیا جائے ۔ کئی روز سے اخبارات لان میں بیٹھ کر محض سونگھ رہا ہوں۔ بیڈ پر لیٹ کر انہیں پڑھنے کی عیاشی سے محروم ہوں۔ جن گھرو ں میں سال چھ مہینے کے جینے کے اسباب موجود ہیں وہاں یہ سب ’’ٹشن‘‘ کئے جا سکتے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ دیہاڑی دار مزدور اس لاک اپ کے دنوں میں کیا کرتے ہونگے ۔ انہیں صرف آج کی روٹی کی فکر ہوتی ہے ۔ اپنی بستی کے آغاز پر ایک جگہ بیٹھے ان مزدوروں کو دیکھتا ہوں ۔ یہ بیچارے کام کی تلاش میں ہر آنے جانے والے کو دیکھتے رہتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو ناشتہ بھی مزدوری میسر آنے کی صورت میں میسر آتا ہے ۔ کالم نگار کو اپنے والد محترم علامہ عزیز انصاری مرحوم و مغفور کے دوست میجر رشید وڑائچ یاد آگئے ۔ اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔ یہ لاہور کی ایک دبنگ تاریخی شخصیت تھے ۔ اپنی طرز کے یہ انوکھے من موجی لیکن بے پناہ درد دل رکھنے والے انسان تھے ۔ ان کا معمول تھا کہ یہ رات کو اپنے گھر میں ڈھیر سارا حلوہ تیار کر لیتے ۔ صبح کسی نان فرو ش کے تندور سے حسب ضرورت نان خریدتے اورپھر یہ لاہور کی کسی سڑک پر کھڑے ان دیہاڑی داروں کو ناشتہ کرواتے اور ان بھوکوں کو بھوک مٹاتے دیکھ کر خوش ہوتے رہتے۔ یہ مزدور اپنی زندگی میں آنے والے اچھے دنوں کا خواب بھی نہیں دیکھتے ۔ انہیں صرف آج کام چاہئے ۔ انہیں صرف آج روٹی چاہئے ۔ ان کے ذہن میں صرف آج ہوتا ہے ۔ یہ سرے سے کل کی فکرسے بے نیاز ہیں۔ کیا خوب بات یاد آگئی ۔ دانتوں تلے موجود لقمہ نگلنے سے پہلے دوسرے لقمے کی طرف ہاتھ بڑھانا اللہ والے شرک سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن ہم ایک نہایت حریص معاشرے میں جی رہے ہیں۔ یہاں کے تاجروں تک مصر کے سید قطب شہید کا فتویٰ ابھی تک پہنچا ہی نہیں۔ ’’غیر منصفانہ شرح منافع سود کی طرح ہی حرام ہے ‘‘۔ لیکن ہمارے تاجر منافع کو اللہ کی رحمت سمجھتے ہوئے اس کی کوئی حد مقرر کرنے کو تیار نہیں ۔ ان کا ایمان ہے کہ گاہک اور اللہ سے کم کی امید نہیںرکھنی چاہئے ۔ ان کے ہاں ذخیرہ اندوزی کی شکل میں سفاکانہ منافع خوری کی وارداتیں بھی دیکھنے میں آتی رہتی ہیں۔ دھرتی ہمیشہ انسانوں پر مہربان رہی ہے ۔ لیکن انسان اک دوسرے کے ساتھ مہربان نہیں۔ کورونا وائرس کا ایک سبب بڑے شہرو ں میں نسبتاً کم رقبے پر کثیر تعداد میں لوگوں کا آباد ہونا بھی ہے ۔ سماجیات کے ماہرین اسے Population Densityکہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس سنگین معاشرتی مسئلے پر کبھی غور ہی نہیں کیا گیا۔ ہمارے سیاسی رہنما ، مذہبی پیشوا اور دیگر با اختیار لوگ دھڑا دھڑ زرعی زمینوں کوکمرشل اور رہائشی پلاٹوں میں ڈھال کر ’’غیر منصفانہ‘‘ منافع کما رہے ہیں۔ ایک رہائشی قطعہ اراضی کسی میاں بیوی کیلئے دانہ گندم کی طرح ہی ضروری ہے ۔ لیکن ہمارے ملک بھر میں کوئی مذہبی ، سیاسی ، عدالتی اور سماجی پیشوا، رہائشی پلاٹوں کی اس ذخیرہ اندوزی پر بولنے کو تیار نہیں۔ امیروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو معاشرہ اپنے غریبوں کو نہیں بچا سکتا وہ اپنے امیروں کو بھی نہیں بچا سکتا۔ کورونا وائرس نے بندہ اور بندہ نواز دونوں کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا ہے ۔ اب ایک آدمی کو دوسرے آدمی اور ایک قوم کو دوسری قوم کواپنے لئے بچانا ہوگا۔ اک دوسرے کو بچانے میں سب کی زندگی ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں ابھی تک اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے لیکن عام آدمیوں کی مدد امداد کے ضمن میں سب فراخ دل لوگ خاموش دکھائی دے رہے ہیں۔شہر میں پیپلز پارٹی کے فوٹو سیشن اور قدرے جماعت اسلامی کی رفاہی سرگرمیاں محسوس ہو رہی ہیں۔ باقی ہر طرف ہو کا عالم ہے ۔ ساری سیاسی جماعتیں لاک اپ میں چھپی بیٹھی ہیں۔ صدر گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن نے مقامی ضرورت مند وکلاء کی امداد کیلئے ایک فنڈ قائم کیا ہے۔لیکن ابھی تک کسی نے اس فنڈ میں ایک آنہ بطور چندہ جمع نہیں کروایا۔
؎ ستارا ڈانس میں لاکھوں روپے کما لائی
جناب شیخ کو چندے میں ایک آنہ ملا
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024