کالا دھن سفید کرنے کےلئے کئی سکیمیں آئیں‘ مثبت نتائج برآمد نہ ہوئے
لاہور (احسن صدیق) پاکستان میں کالا دھند سفید کرنے کےلئے متعدد بار ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں متعارف کرائی گئیں لیکن اس سکیم کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے اور بہت کم لوگوں نے ان سکیموں کے تحت اپنا کالا دھن سفید کرایا۔ مستقبل قریب میں کالا دھن سفید کرنے کےلئے سابق جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں 2000ءمیں ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی گئی جس سے 15سے 16ارب روپے اکٹھے ہوئے اس کے بعد پیپلز پارٹی کے دور 2008ءمیں ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی گئی جس سے 2سے 12.5ارب روپے اکٹھے ہوئے۔ اب 2018ءمیں مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے دور حکومت میں دوسری مرتبہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کرائی جس میں پہلی بار بیرون ملک اثاثوں کو شامل کیا گیا ہے اس سکیم کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ چار سے پانچ ارب ڈالر اکٹھے ہونگے۔ ٹیکس حکام نے رابطہ کرنے پر بتایا ہے کہ دوبئی میں جائیدادوں کے بارے میں کچھ حد تک معاملات ہیں لیکن باقی دنیا میں جائیدادوں کے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں تاہم پاکستان آرگنائزیشن آف اکنامک کوآرڈینیشن اینڈ ڈویلپمنٹ تنظیم کا رکن ہے اس کے قوانین کے تحت متعلقہ ملک کو اس کے شہریوں کی بیرون ملک جائیدادوں کے بارے میں معلومات مل سکتی ہیں۔ دریں اثناءانسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بنکنگ اینڈ فنانس کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کے ہوتے ہوئے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بھارت نے کچھ عرصہ قبل ٹیکس ایمنسٹی سکیم جاری کی تھی جس کے لئے ٹیکس ادائیگی کی شرط 44فیصد تھی لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2سے 5فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر ٹیکس ایمنسٹی سکیم دی ہے جس سے کالے دھن کو قانونی تحفظ ملے گا لیکن سرمایہ کو ہنڈی کے ذریعے باہر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس سکیم سے پاکستان کی معیشت کو نقصان ہو گا۔
ٹیکس ایمنسٹی سکیم