سرکاری اشتہارات کے بقایا جات کی عدم ادائیگی کیخلاف کوئٹہ میں احتجاج
کوئٹہ (نمائندہ نوائے وقت) بلوچستان کے مقامی اخبارات سے وابستہ کارکنوں ‘ اخباری مدیران اور مزدور رہنمائوںنے بلوچستان حکومت کی جانب سے 15 فیصد ٹیکس سے استثنیٰ کے فیصلے کے باوجودصوبے کے سرکاری اشتہارات کے واجبات کی عدم ادائیگی پر شدید تشویش کااظہار کرتے ہوئے اسے بلوچستان کی سب سے بڑی صنعت کا گلہ گھونٹنے کے متراد ف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی منظوری کے باوجود افسر شاہی کی جانب سے پندرہ فیصد ٹیکس کے خاتمے کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنا افسوسناک امر ہے صوبائی کابینہ اپنے ا س فیصلے پر عملدرآمد کو بطور ٹیسٹ کیس لیتے ہوئے افسر شاہی کو فوری عملدرآمد کا حکم دیں بصورت دیگر بلوچستان ایڈیٹرز فورم کے پلیٹ فارم سے بلوچستان سمیت ملک بھر کی نمائندہ صحافتی تنظیموں سے رابطہ کرکے احتجاج میں مزید شدت لائی جائے گی ان خیالات کااظہار بلوچستان ایڈیٹرز فورم کے صدر مرتضیٰ ترین ‘ پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری علی بخش جمالی ‘ مدثر ندیم ‘نعمت اللہ کاکڑ ‘ سہیل جلال انصاری ‘کبیر کاکڑ ‘ بہرام بلوچ‘ میجر ریٹائرڈ نادر حسین زمرد و دیگر نے جمعرات کے روز بلوچستان ایڈیٹرز فورم کے زیراہتمام منعقدہ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ قبل ازیں میٹروپولیٹن کارپوریشن سے ریلی نکالی گئی اور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس کے بعد مظاہرین کوئٹہ پریس کلب پہنچے اور وہاں احتجاجی مظاہرہ کیا ۔ مظاہرین نے پلے کارڈ اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے او رمطالبات درج تھے ۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیٹرز فورم و دیگر تنظیموں کے نمائندوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان کی منظوری کے باوجود گزشتہ چھ مہینوں سے سرکاری اشتہارات کے بقایہ جات کی عدم ادائیگی کے باعث اخبارات سے وابستہ کارکنوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور نوبت ان کے گھروںمیں فاقوں تک آپہنچی ہے مگر افسوسناک طور پر افسر شاہی ایک جائز اور منظور شدہ مطالبے کو التواء میں رکھ کر اپنے مقاصد کی تکمیل کررہی ہے یہ اقدام بلوچستان میں صوبائی حکومت ‘ محکمہ تعلقات عامہ ‘ اخباری مالکان اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ کارکنوں کے مابین غلط فہمیوں کا موجب بن رہا ہے جبکہ اس وقت اخباری صنعت بلوچستان کی واحد اور سب سے بڑی صنعت ہے جس سے ہزاروں گھرانوں کی روزی روٹی لگی ہوئی ہے چونکہ بلوچستان میں پرائیویٹ سیکٹر کے اشتہارات نہ ہونے کے برابر ہیں اس لئے اخبارات کو اپنے مالی امور کی انجام دہی کے لئے حکومتی اشتہارات پر انحصار کرنا پڑتا ہے کچھ عرصہ قبل صوبے میں پندرہ فیصد اضافی ٹیکس عائد کرنے کی کوشش کی گئی جس کا بعدازاں وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے نوٹس لیتے ہوئے اس کی فوری تنسیخ کا حکم دیتے ہوئے اخبارات کو بقایہ جات کی ادائیگی کا حکم دیا مگر افسوسناک طو رپر وزیراعلیٰ کے واضح احکامات کے ایک مہینے بعد بھی بقایہ جات کی ادائیگی ممکن نہیں ہوئی جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے احتجاجی تحریک شروع کردی ہے آج اس کا پہلا دن ہے جس کے تحت پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا گیا اگر ہمارے جائز مطالبے کو تسلیم نہیں کیا گیا تو ہم مرحلہ وار اپنے احتجاج میں شدت لائیں گے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر اور پورے ملک میں اخباری و صحافتی اور مزدور تنظیموں سے رجوع کرکے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔ مظاہرین اس موقع پر اپنے مطالبات کے حق میں شدید نعرے بازی کرتے رہے اور بعدازاں پرامن طور منتشر ہوگئے ۔دریں اثناء بلوچستان ایڈیٹرز فورم کے جاری کردہ بیان میں بعض سرکاری افسران کی جانب سے صنعت دشمن لابنگ اور باہر کے اخبارات کو دبائو میں لاکر ایڈیٹرز فورم کی خبروں کے بائیکاٹ پر مجبور کرنے کے عمل کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بلوچستان ایڈیٹرز فورم کسی بھی سرکاری اہلکار سے کسی قسم کی محاذ آرائی نہیں چاہتی مگر اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات پر چپ سادھ کر ایک مخصوص ٹولے کی اجارہ داری کو دوام دیا جاتا رہے۔
سرکاری اشتہارات/ احتجاج