نوازشریف نے کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ وصول کی لیکن اسکا کوئی ثبوت نہیں : واجد ضیاء
اسلام آباد (نامہ نگار) اسلام آباد کی احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی استغاثہ کے اہم ترین گواہ واجد ضیاءپر ساتویں روز بھی جرح مکمل نہ ہو سکی،عدالت میں پیش کیے گئےکیپیٹل ایف زیڈ ای کے فلو چاٹ کی تحریر اتنی باریک تھی کہ معزز جج کو پڑھنے کیلئے محدب عدسے کا استعمال کرنا پڑا،استغاثہ کے گواہ واجد ضیاءنے جرح کے دوران بتایا کہ نواز شریف نے ہی تنخواہ وصول کی اسکا کوئی ثبوت نہیں، تنخواہ لینے کا کوئی بنک ریکارڈ بھی نہیں، حسن نواز کی کمپنی کیپیٹل ایف زیڈ ای میںنواز شریف کی تنخواہ ایک لاکھ تھی جسے کاٹ کر 10ہزار لکھا گیا۔جمعرات کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، سابق وزیراعظم کے داماد کیپٹن(ر)صفدر احتساب عدالت پیش ہوئے، نواز شریف اور مریم نواز خراب موسم کے باعث اسلام آباد نہ پہنچ سکے۔ سماعت کاآغاز ہوا تو نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مسلسل ساتویں روز استغاثہ کے مرکزی گواہ واجد ضیاکے بیان پر جرح شروع کی اس دوران بنک ٹرانزیکشن سے متعلق رقوم کی منتقلی کافلو چارٹ وکلا صفائی کے حوالے کیا گیا تو مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ اس کو کون پڑھے گا بہت چھوٹا لکھا ہے، فلو چارٹ دیکھتے ہوئے وکیل نے ضرب المثل”لکھے موسی پڑھے خودآ“کہی، اس دوران فاضل جج محمد بشیر نے کہاکہ آج سماعت مختصر کرتے ہیں،کیونکہ آج خود کو تھکا ہوا محسوس کر رہا ہوں، اس دوران انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی حاضری سے ایک دن کے استثنا کی درخواست منظورکرلی۔ خواجہ حارث نے ملازمت کے کنٹریکٹ سے متعلق واجد ضیا سے جرح شروع کی، خواجہ حارث نے پوچھا کہ ایک لاکھ درہم تنخواہ لکھ کر کاٹ کر کس نے لکھی؟ واجد ضیا نے بتایا کہ اصل تنخواہ ایک لاکھ تھی، کاٹ کر 10ہزار لکھا گیا، نہیں معلوم کس نے لکھا یا کاٹا لیکن دستاویزات تصدیق شدہ ہیں، ، نواز شریف کی ملازمت کا کنٹریکٹ میرے سامنے تیار نہیں ہوا۔گواہ نے یہ بھی بتایا کہ دبئی جانے والے جے آئی ٹی اراکین نے دستاویز پر مہر لگانے والے کا بیان ریکارڈ نہیں کیا۔خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا آپ نے رپورٹ میں لکھا کہ جے آئی ٹی کے دو ارکان کیپیٹل ایف زیڈ ای کی دستاویز لینے گئے؟۔ واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم ایک کے صفحہ سات پر لکھا ہوا ہے کہ جے آئی ٹی کے دو ارکان متعلقہ ریکارڈ کے حصول کے لیے دبئی گئے تھے، تاہم دبئی جانے والے جے آئی ٹی ارکان نے اس دستاویز پر مہر لگانے والے کا بیان ریکارڈ نہیں کیا۔واجد ضیانے خواجہ حارث کے سوالات پر کہاکہ شریف خاندان کے دبئی میں کاروبار سے متعلق ریکارڈ اور ثبوت اکھٹے کیے، خاص طور پر کیپیٹل ایف زیڈ ای کے دستاویزات لینے گئے، دونوں ارکان نے کیپیٹل ایف زیڈ ای سے متعلق دستاویزات کے علاہ کچھ حاصل نہیں کیا، دونوں ارکان صرف کیپیٹل ایف زیڈ ای کے ریکارڈ اور شواہد لائے۔
واجد ضیاءنے وضاحت کی کہ وہ دستاویزات کے متن پر بات نہیں کریں گے ۔نواز شریف کی کیپیٹل ایف زیڈ ای کی ملازمت سے متعلق سکرین شاٹ میں ملازمت کی تاریخ درج ہے، خواجہ حارث نے کہاکہ آپ نے تفتیش نہیں کی کس دستاویز میں درخواست کی بات ہو رہی ہے؟ واجد ضیا نے جواب دیا کہ درخواست سے متعلق میں بات نہیں کرونگا،ہر کالم دوسرے کالم سے منسلک ہے،سکرین شاٹ کس تاریخ کو بنا تاریخ درج نہیں، سکرین شاٹ پر جو ہے وہی ہے، ۔جرح کے دوران واجد ضیا نے نواز شریف کی طرف کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ وصول کرنے کی تصدیق کی تو خواجہ حارث نے استفسارکیاکہ تنخواہ کا چارٹ تصدیق شدہ نہیں ۔ واجد ضیانے جواب دیاکہ تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ جمع کروایا گیا ہے جس کے ساتھ یہ دستاویزات منسلک ہیں ان کی علیحدہ سے تصدیق کی ضرورت نہیں۔ نواز شریف نے آخری تنخواہ گیارہ اگست 2013کو وصول کی اور وصول کی گئی تنخواہ جولائی کے مہینے کی تھی ۔ واجد ضیا نے اعتراف کیا کہ ہم جافزا کی دستاویزات پر انحصار کر رہے ہیں، ان دستاویزات میں صرف ملازمہ کو تنخواہ ادائیگی کا ذکر ہے، تنخواہ کس ملازم کی تھی ان پر یہ درج نہیں، تنخواہ نواز شریف نے ہی وصول کی اسکا کوئی ثبوت نہیں، ایسا بنک ریکارڈ بھی نہیں کہ تنخواہ نواز شریف نے وصول کی۔واجد ضیا نے کہا کہ ایسا کوئی ریکارڈ نہیں کہ نواز شریف کے توسط سے کسی نے تنخواہ وصول کی جبکہ تنخواہ کے سکرین شاٹ پر نواز شریف کا نام درج نہیں۔ واجد ضیا نے کہا کہ آپ نے سپریم کورٹ سے تنخواہ وصولی کی تصدیق کی تھی جس پر خواجہ حارث بولے کہ ہم نے کبھی نواز شریف کے تنخواہ وصول کرنے کو تسلیم نہیں کیا، آپکو وہاں کی سہولت یہاں میسر نہیں۔ خواجہ حارث کی جرح جاری تھی، کیس کی سماعت آج صبح 9 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
واجد ضیاء