ہم پاکستانیوں کی قسمت میں خوشی کے لمحات محدود اورپریشانیوں کے لا محدود ہوتے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو چھوٹی موٹی خوشیاں بھی لگتا ہے ہماری اِستعداد سے باہر ہو گئی ہیں ۔کرکٹ کے کھیل ہی کو لے لیجئے۔الیکٹرونک میڈیا کی بدولت یہ کھیل ملک کے کونے کونے میں کھیلا جاتا اور دیکھا جاتا ہے۔کھیل تو پھر کھیل ہی ہوتا ہے۔اِس میں کبھی ہار اور کبھی جیت ہوتی ہے لیکن ہمارا میڈیا معمولی فتوحات کو بھی اِس انداز میں پیش کرتا ہے گویا کوئی زبردست معرکہ سرکر لیا۔پھر جب شکست کا سامنا کرنا پڑجائے تو گویا سب کچھ ہی بربادہوتا نظر آتا اور پیش کیا جاتا ہے ۔لوگوں کو اُمید دلوادی گئی تھی کہ ہماری ٹیم کم از کم سیمی فائنل تک تو ضرور جائیگی۔ایسا کرنے کے واسطے ٹیم کو ویسٹ انڈیز کی ٹیم سے مقابلہ کرنا اور اُسے شکست دینا تھا لیکن ہماری ٹیم کی کارکردگی اِس میچ میں اِسقدر کمزور رہی کہ کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے۔ویسٹ انڈیز کی ٹیم سے نہ صرف شکست ہوئی ۔شکست فاش ہوئی ۔وقت آگیا ہے کہ کرکٹ بورڈ کھلاڑیوں کے دل میں میدان میں اُتر تے وقت مضبوط جیت اور فتح مندی کا جذبہ اُجاگر کرے ۔ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ٹیم پرفارمنس اِسقدر غیر یقینی کیوں ہے ۔
غیر یقینی صورتِ حال کھیل کے میدانوں تک نہیں ہے اسکا پھیلائو دور دور تک ہے بلکہ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ قومی زندگی کا کم وبیش ہر شعبہ اِس سے متاثر ہے ۔ دہشت گردی غالبًا ملک کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔حکومت نے فیصلہ کیا کہ اِس مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی ہر کوشش آزمائی جائے چنانچہ کالعدم تحریک ِ طالبان پاکستان اور حکومت دونوں نے اپنی اپنی کمیٹیاں اِس مقصد کیلئے تشکیل دیدیں۔حکومتی مذاکراتی ٹیم میں بیشتر ارکان کا تعلق بیوروکریسی سے ہے اِس وجہ سے اِس کمیٹی کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار میڈیا اور سیاسی جماعتیںدونوں طرف سے ہوا۔ ابتک اِن کمیٹیوں کے ایک ایک دو دو اجلاس ہوئے ہیں طرفین نے اپنی اپنی طرف سے مطالبات کی تفصیل پیش کر دی ہے جن پر غور ہو رہا ہے ۔طالبان کی طرف سے جو مطالبات پیش کئے گئے ہیں اُن میں ایک پیس زون کا قیام ہے جہاں طالبان اور اُنکی شوریٰ کے ارکان آزادی سے آجا سکیں ۔اِس مقصد کے حصول کیلئے مطلوبہ جگہ سے فوج اور سکیورٹی ایجنسیز کی چوکیاں ہٹالی جائیں دوسرے اُن Combatants Non اسیران کو جنکی تعداد تین سو سے اُوپر ہے اور جن میں بزرگ لوگ،خواتین اور بچے شامل ہیں فوری طور پر رہا کردیا جائے۔
تیسرا مطالبہ غالباً یہ تھا جن طالبان کے گھروں اور جائیداد کو حکومتی اقدامات کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے ۔اُنھیں مالی معاوضہ ادا کیا جائے۔(جس کی مقدار ارب ہا میں ہے)طالبان نے اپنی طرف سے جارجیت ایک ماہ کیلئے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔یہ تاریخ 31 مارچ کو ختم ہونا تھی۔ اپریل کے مہینہ کا آغاز ہو چکا چھوٹے موٹے واقعات کے علاوہ اِس دوران دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رُونما نہیں ہوا ہے۔فروری کے مقابلہ میں مارچ کے مہینہ دہشت گردی اور اُسکی وجہ سے ہلاکتوں کی تعدادمیں خاطر خواہ کمی ہوئی ۔حکومت کی طرف سے طالبان کو اَبھی جواب دیا نہیں گیا ہے کہ اِنکے مطالبات پر حکومت کا ردعمل کیا ہوگا۔ وزیر داخلہ نے تین روز تک جواب دینے کا عندیہ تھا تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مطالبات میں کچھ کو تسلیم کر لینا حکومت کیلئے ممکن نہ ہو گا۔مثلاً پیس زون بنانے کی خاطر اُن علاقوں سے فوج اور سکیورٹی ایجنسیز کی واپسی۔ یہ سارا علاقہ پاکستان ہے اور پاکستان کو اپنے علاقہ میں کہیں بھی فوج رکھنے کی آزادی ہے۔ اُس سے مطالبہ کرنا کہ اپنے ہی کسی علاقہ سے اپنی فوج ہٹالے۔ سمجھ میں آنیوالی بات نہیںاور نا ہی تسلیم کی جا سکتی ہے ۔ جہاں تک گرفتار طالبان کا تعلق ہے بلا تحقیق اُنکو رہا کرنا پاکستان کیلئے خالی از خطرہ نہ ہو گا ۔ماضی میں جب کبھی ایسے لوگوں کو رہا کیا گیا حکومت نے جلد ہی اُنھیں دوبارہ اپنے خلاف صف آرا پایا۔جن لوگوں پر مقدمات قائم ہیں اُنکے خلاف عدالتی فیصلہ سے قبل کوئی اقدام خلاف مصلحت ہوگا۔تاہم ایسے لوگوں کی رہائی پر غور کیا جاسکتا ہے جنکا محاذ آرائی سے کوئی تعلق نہ ہو ۔ تازہ ترین اطلاعات کیمطابق حکومت نے ایسے 19 گرفتار شدگان کو رہا کردیا ہے ۔مزید 100 افراد کی رہائی عنقریب ہونیوالی ہے ۔عسکری ذرائع اِس اقدام سے خوش نظر نہیں آتے ۔خواتین اور بچوں کی اسیری کے متعلق فوج نے کہا ہے کہ خواتین یا بچے اُنکی تحویل میں نہیں اور نہ ہی اُنکی اسیری کا اُنھیں کو ئی علم ہے ۔جہاں تک نقصانات پر معاوضہ کا سوال ہے ،آیا طالبان اُن نقصانات کا ازالہ کرنے پر تیار ہونگے جو اُنکے ہاتھوں ملک کو پہنچا ہے۔جس فراوانی سے وہ جدید ترین اسلحہ اور رسل وسائل کے ذرائع استعمال کرتے ہیں اُس سے اُنکے مالی وسائل کا اندازہ لگا لینا زیادہ دشوار نہ ہونا چاہئے۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے اِس اعلان نے کہ کسی ’’دوست ملک ‘‘نے پاکستان کے ترقیاتی فنڈ میںڈیڑھ ارب کا تحفہ دیا ہے ایک طویل بحث کو جنم دیا ۔میڈیا نے جاننا چاہا کہ آخر وہ کونسا دوست ملک ہے جس نے ڈیڑھ ارب ڈالر تحفہ میں دیدئیے اور نام تک افشاکرنے کی اجازت نہ دی ۔پھر دوست ملک سعودی عرب کے وزیردفاع ولی عہد اور وزیر خارجہ کی پاکستان میں آمد ہمارے وزیراعظم ،آرمی چیف کے سعودی عرب کے جوابی دورے سے بات صاف ہو گئی کہ وہ دوست ملک سعودی عرب ہے ۔اسکے ساتھ ہی متحدہ عرب امارت سے چند اعلیٰ عہدے داروں اور والی بحرین کی پاکستان آمد نے مزید شبہات اورسوالات کو جنم دیا ۔لوگ پوچھتے ہیںکہ اِس تحفہ کے بدلے ہم نے سعودی عرب کو کیا دینے کی پیش کش کی ہے۔یہ سوال بھی اُٹھایا گیا کہ کہیں ہم غیر اِرادی طور پر مشرق وسطیٰ کے ممالک میں ہونے والی نئی گروہ بندیوں کا حصہ تو نہیں بننے جا رہے۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان عرصہ سے قائم چشمک زور پکڑتی جارہی ہے ۔خطہ کے ممالک سعودی موافق یا ایران موافق بلاک میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔ سعودی عرب شام میں جاری خانہ جنگی میں شام کی حکومت مخالف باغی قوتوں کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔ اُنھیں اسلحہ بارود اور رقوم کھلے دل سے فراہم کر رہا ہے۔ اندیشہ پیدا ہوا کہ پاکستان کہیں سعودی عرب کے راستہ شام کی خانہ جنگی میں ملو ث تو نہیں ہو جائیگا۔سعودی عرب نے پاکستان سے اسلحے کی خرید میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ اسلحہ شامی باغیوں کے کام آسکتا ہے ۔ پاکستان نے ایک مرتبہ شام میں ایک مختصر مدتی نیوٹرل حکومت کے قیام کی تجویز کی بھی حمایت کی تھی۔پیدا ہوجانے والے شبہ کو اُس بیان نے تقویت پہنچائی ۔ حکومت اور حکومتی عہدے داروں نے سختی سے اِس شبہ کی نفی کی لیکن شبہات دور نہ ہو سکے۔پاکستان کو مشرق وسطیٰ کے اِس کھیل میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں تمام ملکوں سے دوستانہ تعلقات رکھنا چاہئیں۔مسلم ممالک کے مابین اختلافات کو دور کرنے میں پاکستان کو حیثیت کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری کیلئے کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ ہمیں مسلم ممالک کے درمیان اختلاف کو دور کرنے کی کوششوں کا حصہ بننا چاہئے ناکہ اُن اختلافات کا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024