مجھے فخر ہے عدلیہ آئینی حکمرانی ‘ بنیادی حقوق کی محافظ‘ نجات دہندہ بن کر ابھری : چیف جسٹس
حیدرآباد (نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ مجھے اس بات پر فخر ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ میں آج پاکستان کا چیف جسٹس ہوں، اپنی مادر علمی گورنمنٹ سندھ لاءکالج میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستان کے وجود میں آنے میں اللہ کی مدد کے ساتھ ساتھ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی جدوجہد بھی شامل تھی۔ قائداعظمؒ بھی وکالت کے شعبے سے منسلک تھے۔ پاکستان میں جتنے بھی سربراہ مملکت آئے بیشتر کا تعلق وکالت سے رہا ہے۔ وکلا آئین اور قانون کی بالادستی میں مددگار ثابت ہوں گے، قانون کے شعبے کی بہت اہمیت ہے، طلبا نے قانون دان بنکر بہت سی ذمہ داریاں نبھانی ہیں قانون کی بالادستی اور حکمرانی بہت ضروری ہے تاکہ مساوات پر مبنی معاشرہ قائم ہو سکے، 1973ءکے آئین کے تحت اختیارات کے حصول کا مقصد سب کو انصاف کی فراہمی، تمام اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کا ماحول پیدا کرنا ہے، عدلیہ کو عدالتی نظرثانی کا اختیار خصوصی طور پر دیا گیا ہے تاکہ کسی ادارے کی طرف سے آئینی تجاوز اور انحراف کرنے پر نظر رکھی جا سکے۔ عدلیہ آئینی حکمرانی اور بنیادی حقوق کی محافظ اور صحیح نجات دہندہ کے طور پر ابھری ہے۔ ثناءنیوز کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ عدالتی فعالیت نے نہ صرف عدالتی نظام کو بہتر بنایا بلکہ اس سے عدلیہ پر عوامی اعتماد اور بھروسے میں اضافہ ہوا ہے۔ وکلاءہی کمزوروں کے نڈر محافظ اور حقِ مساوات کے رکھوالے ہیں نوجوان مستقبل کے پاکستان میں آئین کی بالادستی اور جمہوری حکمرانی کی ترویج کا پیش خیمہ ہیں، قانون کے نوجوان طالب علم معاشرے کا اہم ستون اور حصہ ہوتے ہوئے مستقبل میں اچھے جمہوری رہنما ثابت ہوں گے اور آئینی قوانین کو بلند کریں گے۔ اس میں شک نہیں کہ گورنمنٹ سندھ لاءکالج عملی اہمیت کا حامل تعلیمی مرکز ہے جو طلبا کو اعلیٰ معیار کی قانونی تعلیم مہیا کر رہا ہے۔ یہ امر قابلِ تحسین ہے کہ اِس اِدارے کے بہت سے طالبعلموں نے بہت سے اہم سرکاری عہدوں پر اہم جگہ پائی، میں نے خود یہاں سے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے۔ قانون ہماری زندگیوں کے تمام پہلوﺅں کو قریباً منظم کرتا ہے۔ اس میں بالواسطہ ہر کسی کا مفاد شامل ہوتا ہے۔ قانون ایک دائرہ کار مہیا کرتا ہے جس کے اندر معاشرتی نظام چلتا ہے مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کےلئے قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی ضروری ہے۔قانون دان کو تجزیہ کرنے کیلئے تکنیکی اور تنقیدی طور پر کوشش کرنی چاہئے، انتہائی قانونی تحقیق کر کے قانونی سقم دور کرنے کےلئے راستے ڈھونڈنے چاہئیں۔ بلاشبہ انصاف کی فراہمی کے عمل میں عدلیہ کا کرداربنیادی ہے مگر اس حوالے سے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ریاست کے تمام حکام اور اِداروں بشمول انتظامیہ اور مقننہ کو شفاف انصاف کی فراہمی میں اہم حصہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ 1973ءکے آئین کے تحت اختیارات کی تقسیم کے اصول کا منشاءانصاف کی فراہمی کےلئے تمام اِداروں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کا ماحول پیدا کرنا ہے۔آئین نے عدلیہ اعلیٰ کو عدالتی نظرثانی کا اختیار خصوصی طور پر دیا ہے تاکہ وہ کسی ادارے یا فرد کی طرف سے آئینی تجاوز اور انحراف کو روک سکے اور بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ دورمیں عدلیہ آئینی حکمرانی اور بنیادی حقوق کی محافظ اور صحیح نجات دہندہ کے طور پر ابھری ہے۔ وکالت ایک مقدس پیشہ ہے اور ناانصافی کے مدِمقابل مزاحمتی عوامل میں وکلاءبرادی سب سے زیادہ لب کشا ہے۔ قانون کو بطور پیشہ ہر میدانِ عمل میں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انصاف رسانی کی ترقی و ترویج وکلاءسے حتی الوسع پختہ عزائم کی متقاضی ہے۔ وکلاءنظام قانون میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں، معیارِ قانون اور قانونی طرزِ عمل کافی حد تک اُن کے ہاتھوں میں ہے۔ وکلاءکا طرزِ عمل قانون کی ترقی کا موجب ہے۔ وکلاءہی کمزوروں کے نڈر محافظ اورحقِ مساوات کے رکھوالے ہیں۔2007ءکے اواخر میں ایمرجنسی کے دوران وکلاءکی تحریک دراصل عدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی کی خاطر ہی تھی۔ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بحالی کےلئے وکلاءکا کردار نہایت قابلِ ستائش ہے جو حقیقی عدلیہ کی بحالی اور پاکستان میں آئندہ غیرآئینی اقتدار کی راہ میں رکاوٹ پر منتج ہواہے۔ جیسا کہ آپ نوجوان لوگ ہیں اورمستقبل کے پاکستان میں آئین کی بالادستی اور جمہوری حکمرانی کی ترویج کا پیش خیمہ ہیں۔ میں آپ کو یہ نصیحت کرنا چاہوں گا کہ آپ عدلیہ کے اُن رہنما فیصلہ جات کا بغور مطالعہ کریں جن میں آئین اور قانون کے مضمرات کی تشریح اور وضاحت کی گئی ہے تاکہ آئینی ارتقاءاور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں اعلیٰ عدلیہ کے کردار سے آپ واقف ہو سکیں اور آنے والے دنوں میں اپنا کردار احسن طریقہ سے انجام دے سکیں۔