ہفتہ ‘ 16 ؍محرم الحرام 1442 ھ‘ 5؍ستمبر 2020ء
خسرکاری محکموں میں کھڑی گاڑیوں کے پرزے چوری ہونے کا انکشاف
پنجاب کے مختلف محکموں کی ’’کھٹارہ‘‘ قرار دیکر ’’کھڈے لائن‘‘ لگائی گئی گاڑیاں تو کسی کام کی نہیں رہتیں تاہم ان کے پرزے نکال کر کام میں لائے جا سکتے ہیں ، اسی طرح تھانوں میں کھڑی پرائیویٹ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں جو ’’کارآمد‘‘ ہوں ان کو پولیس افسر و اہلکار ’’پسند اپنی اپنی ، نصیب اپنا اپنا‘‘ کے تحت ’’منتخب‘‘ کرتے ہیں پہلے ان کو چند روز ’’نیم سرکاری‘‘ اور پھر مستقل طور پر ’’سرکاری‘‘ بنا لیتے ہیں جو گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں اپنی ’’طبعی عمر‘‘ پوری کر لیتی ہیں۔ یا کسی حادثہ کے باعث استعمال کے قابل نہیں رہتیں تو پھر ’’پوسٹمارٹم‘‘ کرتے ہوئے ان کے پرزے وغیرہ بھی نکال لیے جاتے ہیں تاکہ ’’نعمتوں‘‘ کی ’’ناقدری‘‘ نہ ہو اور کسی چیز کو بھی ’’نکما‘‘ سمجھ کر ضائع نہ کر دیا جائے۔ ورنہ معمولی مرمت نہ کرانے کے باعث قیمتی گاڑیاں ’’کھٹارہ‘‘ بن جاتی ہیں اور اگر پرزے بھی نہ نکالے جائیں تو پھر وہ بھی برباد ہو جائیں گے۔ اب رہا مسئلہ چوروں کا۔ تو کسی بھی محکمہ یا تھانہ میں کھڑی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کے پرزے چرانے کے لیے چور باہر سے تو نہیں آتے ناں۔ یہ گھر کے’’ بھیدی ہی ہوتے ہیں جو لنکا ڈھاتے ہیں۔‘‘ کئی بار ایسے ہوا کہ اعلیٰ پولیس و دیگر افسر مسروقہ گاڑیاں استعمال کرتے پکڑے گئے لیکن کوئی ان کا ’’بال بیکا نہیں کر سکا۔‘‘ تو یہ چھوٹے موٹے پرزے موٹر سائیکلوں کی ٹینکیاں ، ٹاپے ، پلگ چرانے والوں کیخلاف کیا کارروائی ہو گی۔
٭٭٭٭
خیبر پی کے میں 2 لاکھ 49 ہزار 939اسلحہ لائسنس جاری
اسلحہ لائسنس تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے 7 سالہ دور میں جاری ہوئے، سوات سرفہرست رہا، سب سے زیادہ 21 ہزار 88 لائسنس جاری کیے۔ تاہم یہ سارے لائسنس غیر ممنوعہ بور کے ہیں ، کہتے ہیں کہ ایک ’’میراثی‘‘ کسی ڈی سی (ڈپٹی کمشنر) کے پاس اسلحہ لائسنس کے لیے گیا تو ’’فارم‘‘ ’’توپ‘‘ کے لائسنس کا جمع کرا دیا ، ڈی سی نے پوچھا تو کہنے لگا ’’مائی باپ‘‘ توپ کا مانگیں گے تو پسٹل ، ریوالور یا 12 بور گن کا لائسنس ملے گا۔ اب لگتا ہے کہ سرحدی پٹھانوں نے بھی کسی ایسے ہی ’’سیانے‘‘ کی بات پلے باندھ لی ہے اور غیر ممنوعہ بور کے اتنی بڑی تعداد میں لائسنس جاری کرا لیے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ سرحدی علاقے کے لوگ اپنی ’’ضروریات‘‘ اور مزاج کے مطابق ہی اشیاء کے لائسنس حاصل کریں گے ، اب وہ ’’شرلیاں، پٹاخے‘‘ نسوار ، پان ، بھنگ ، چرس ، شراب کے لائسنس لینے سے تو رہے۔
٭٭٭٭
نواز شریف نہ آئے تو پارٹی تقسیم ہو جائے گی: شیخ رشید
شیخ رشید سیاست میں دانشمندی کا ایک استعارہ سمجھے جاتے ہیں ، وہ ہمیشہ ہوش سے بولتے ہیں، بولنے کے بعد ہوش میں نہیں آتے۔ ان کی گفتگو مقفّع ، مسجّع ہوتی ہے جبکہ ان کے ’’سیاسی چٹکلوں‘‘ میں کئی پیشگوئیوں کا تاثر و تصور اُبھرتا ہے ان میں سے کئی جلد یا بدیر پوری ہو جاتی ہیں جبکہ کئی پیشگوئیاں خواہشات اور خوابوں کی اندھیر نگری میں’’سرپھوڑتی‘‘ رہ جاتی ہیں۔ اب بھی وہ حسب عادت ’’دور کی کوڑی‘‘ لائے ہیں کہ نواز شریف نہ آئے تو پارٹی دو حصوں ’’شین‘‘ اور (ن) لیگ میں تقسیم ہو جائے گی۔ اب پتہ نہیں ، شیخ رشید کو (ن) لیگ کی اتنی فکر کیوں ہے۔ حالانکہ نواز شریف ’’اندر‘‘ رہیں یا ’’باہر‘‘ (ن) لیگ کی تقسیم کا فی الحال کوئی خدشہ نہیں۔ ویسے بھی (ن) لیگ ملک کی بڑی اور مقبول سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے اور تقسیم ہو بھی جائے تو کوئی ’’برائی ‘‘ ہے نہ سیاسی یا تنظیمی نقصان کا اندیشہ ہے اور تقسیم کے بعد ہی (ن) اور شین لیگ بہت ساری سیاسی جماعتوں سے بڑی ہی رہیں گی لیکن اگر کسی ’’دل جلے ‘‘ (ن) لیگی نے عوامی مسلم لیگ کے تقسیم ہونے کی ’’دعا‘‘ یا ’’بددعا‘‘ کر دی تو پھر کیا ہو گا۔ اس لیے شیخ رشید ’’کل جماعتی‘‘ اور ’’کل وزارتی ‘‘ ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے ریلوے اور عوامی مسلم لیگ پر ہی توجہ دیں اسی میں ان کا اور ’’ہمارا‘‘ بھلا ہے۔ ویسے شہباز شریف نے بھی کہا ہے کہ ’’نواز شریف صحت مند ہونگے تو عدالتوں میں آئینگے۔‘‘ اب پتہ نہیں شہباز شریف کی ’’میڈیکل سائنس‘‘ میں صحت مند کی تعریف کیا ہے۔ یہ تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں …ع
’’کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا‘‘
٭٭٭٭٭
تعلیمی بورڈ لاہور کی 19 گاڑیاں 2 سال میں ساڑھے 4 کروڑ کا تیل ’’پی‘‘ گئیں
لاہور بورڈ کے افسر اور ملازمین بھی اسی ملک کے شہری ہیں ، یہیں پیدا ہوئے ، پلے ، بڑھے اور پروان چڑھے ہیں ، ان کی عادتیں بھی یقیناً دیگر پاکستانیوں جیسی ہی ہیں اور بورڈ کی گاڑیاں بھی پاکستان کے دیگر سرکاری محکموں کی گاڑیوں جیسا ہی ’’مزاج‘‘ رکھتی ہیں۔ اس لیے اگر مالی سال 2017-18 ء کے دوران پٹرول کی مد میں 3 کروڑ، مرمت و دیکھ بھال پر 40 لاکھ ، 2018-19ء کے دوران پٹرول کے لیے ایک کروڑ 50 لاکھ اور مرمت پر 30 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ کل کلاں کہیں ’’باز پرس‘‘ ہوئی تو ’’رشوت لیتے پکڑا گیا ، رشوت دے کر چھوٹ جا‘‘ والا ’’عالمگیری نسخہ‘‘ بھی کام آ سکتا ہے۔ ویسے بھی ملکی خزانے پر سب برابر کا ’’حق‘‘ رکھتے ہیں۔ اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں ، پٹرول کی تمام ’’رسیدیں‘‘ اور گاڑیوں کی تعمیر و مرمت کے تمام ’’بل‘‘ حساب کتاب کو بے باق اور شکوک و شبہات سے پاک کرنے کے لیے کافی ہونگے۔