گزشتہ دو ماہ میں درآمدات میں 1.69 بلین ڈالرز کمی سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے مگر اس کی وجہ سے کسٹم امپور ٹ ڈیوٹی میں کمی سے حکومت کا ریونیو ٹارگٹ میں 64 ارب روپے کا شارٹ فال ہے تاہم اگر حکومت کے موجودہ دوماہ کے ریونیو ہدف کا گزشتہ سال سے موازنہ کیا جائے تو 578 ارب روپے کا ریونیو جمع ہونا خاصہ حوصلہ افزا بات ہے مگر IMF کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے مالی سال 2019-20 ء کا ٹارگٹ 5500 ارب روپے بڑا مشکل ٹارگٹ ہے۔ کیونکہ قومی معیشت کی کساد بازاری، برآمدات کا نہ بڑھنا، لارج سکیل صنعتوں کی منفی گروتھ، بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور 10 فیصد سے زیادہ شرح مہنگائی کی وجہ سے پاکستان اقتصادی لحاظ سے اس وقت انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے اس سال جی ڈی پی کی شرح نمو 3.29 فیصد رہی ہے جو تشویشناک امر ہے اور گزشتہ 9 سال کی مدت میں پست ترین جبکہ 2017-18 ء میں جی ڈی پی کی شرح نمو 5.53 فیصد تھی موجودہ حکومت شرح نمو کی گروتھ کو کوئی قابل قدر معاشی اشاریہ تسلیم نہیں کرتی مگر تمام ماہرین معیشت اس بات پر متفق ہیں کہ شرح نمو کی گروتھ سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے عام لوگوں کو روز گار ملتا ہے اور غربت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ مگر شرح نمو میں کمی سے غربت اور بیروزگاری کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کا خیال ہے کہ شرح ترقی میں حالیہ کمی کی وجہ سے 40 لاکھ سے زیادہ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور 10 لاکھ لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں ۔ 2017-18 ء میں معیشت کا حجم 313 ارب ڈالرز تھا جو 2018-19 ء میں گر کر 208 ارب ڈالرز پر آ گیا ہے۔ اس تنزلی کی بنیادی وجہ روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 34 فیصد کمی ہے اور زرعی شعبہ میں ترقی کی رفتار محض 0.85 فیصد رہی ہے جبکہ صنعتی شعبے میں ترقی کی شرح صرف 1.04 فیصد تک محدود ہے۔ دنیا کے تمام ماہرین معیشت کیلئے یہ بڑا حیران کن ہے کہ وہ پاکستان جو بہترین زراعت، صنعت ، تجارت، معدنیات، سیاحت، تعلیم ، سائنس و ٹیکنالوجی اور دنیا کی بہترین نوجوان افرادی قوت والا ملک ہے اسکی معیشت اس قدر دگرگوں ہو سکتی ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ کیمطابق گزشتہ مالی سال یعنی 2018-19 ء میں پاکستان نے بیرونی قرضوں اور سود کی مد میں 11.55 ارب ڈالرز ادا کئے جو کہ اس سے ایک سال پہلے کی نسبت 54 فیصد زیادہ تھے۔ ظاہر ہے یہ قرضے سابقہ حکومتوں نے لیے مگر اس کی ادائیگی پی ٹی آئی کی حکومت کو کرنا پڑ رہی ہے قرضوں کے اس منحوس چکر نے ہمیں ایک لمبی مدت کیلئے قرض خواہ اداروں کے ہاتھوں گروی بنا دیا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ پہلے سے لیے گئے قرضوں کی واپسی اور موجودہ ضروریات کے لیے ہم سال بہ سال مزید قرض لیتے گئے اور اس طرح قرضوں کا حجم نمایاں طور پر بڑھ گیا۔ مجموعی ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا حجم 40 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ غیر ملکی قرضوں کا حجم 106.312 ارب ڈالرز تک جا پہنچا ہے تاہم ایک بات جو اچھی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جولائی 2018ء میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 213 ارب ڈالرز تھا جو اس سال 57 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز رہا ہے تاہم یہ درآمدات میں کمی سے ممکن ہوا ہے مگر ضروری ہے کہ جس قدر درآمدات کے حجم میں کمی سے ریونیو شارٹ فال اور سیلز ٹیکس میں کمی آئی ہے اس قدر برآمدات بڑھنی چاہئیں تاکہ حکومت کو ڈالرز ملیں۔ مگر جو سب سے زیادہ تشویشناک امر ہے وہ یہ ہے کہ بجائے انکے کہ حکومت اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کم کرتی مگر حکومت نے اپنے ترقیاتی بجٹ پر 50 فیصد کٹ لگانے کے باوجود اس کے غیر ترقیاتی اخراجات 7 ہزار ارب سے زائد ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سال بجٹ کے خسارے کا تخمینہ 2175 ارب روپے لگایا گیا تھا جو اب 3444 ارب یعنی قومی پیداوار کا 8.9 فیصد ہو چکا ہے جو کہ گزشتہ 8 سال کی بلند ترین سطح ہے وزارت خزانہ کی فسکل آپریشنز رپورٹ کے مطابق حکومت نے اپنے بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کیلئے 3028 ارب ملکی اور 416.70 ارب روپے کا غیر ملکی قرضہ لیا ہے۔ حکومت نے 2018-19ء میں مجموعی طور پر 1390 ہزار ارب روپے کا بیرونی قرضہ لیا اور 974 ہزار ارب روپے کی واپسی کی۔ اِس طرح خالص بیرونی قرضہ 416 ارب روپے رہا۔ معیشت کے نہ سنبھلنے کی وجہ سے کاروباری افراد نے 700 سے زائد ارب روپے بنکوں سے نکلوا کر گھروں میں رکھ لیئے ہیں۔ ہر طرف شدید کساد بازاری کا دور ہے۔ مارکیٹ میں اشیاء و خدمات وافر مقدار میں موجود ہیں مگر عوام کے پاس اِنکی خریداری کیلئے آمدنی نہیں ہے جسکی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صنعتکار، تاجر اور بیوروکریٹس نیب کے ڈر سے کوئی کام نہیں کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نیب آرڈیننس میں تبدیلی لا رہی ہے جسکے نتیجے میں کاروباری حضرات اور بیوروکریٹس نیب کے شکنجے سے بچ پائیں گے۔ ایسے میں عوام پر بے تحاشا ٹیکس بڑھا دیئے گئے ہیں۔ بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہر شے کی خریداری پر 15 فیصد سیلز ٹیکس نے اُنکی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اور دوسری طرف اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی شادی بیاہ کے لیے فرنیچر، الیکٹرونکس اور کپڑے خریدنا چاہتا ہے تو دکاندار کریڈٹ کارڈ، ڈبیٹ کارڈ یا چیک لینے کی بجائے نقد رقم کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ وہ بنکنگ چینل کے ذریعے لین دین سے کتراتے ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ کاروباری طبقہ معیشت کو دستاویزی بنانے کے عمل میں تعاون کرے گا اور ٹیکس دے گا۔ ہمارے ہاں تو عام رواج ہے کہ بڑے بڑے کاروباری ادارے عوام سے ٹیکس لے لیتے ہیں مگر آگے حکومتوں کو ادا نہیں کرتے۔ ہوٹل اور ریسٹورانوں میں علّت عام ہے۔ وہ اکثر اپنے گاہکوں کو سادہ کاغذ پر قیمت لکھ کر ادائیگی کا کہتے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38