سچی بات ہے اپنی ناقص عقل کے لاکھ گھوڑے دوڑانے کے باوجود میں یہ سمجھنے سے عاجز ہوں کہ ’’اگر بھارت نے کوئی ایڈونچر کیا تو بھرپور جواب د یں گے۔ وزیر اعظم پاکستان کی اس دھمکی سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے بہیمانہ مظالم برداشت کرنے کشمیریوں کو کیا فائدہ ہو گا اور ان کی مزاحمتی تحریک کو کتنی تقویت حاصل ہو گی مودی نے تو ایڈونچر کر دیا ہے اور اس ’’ایڈونچر‘‘ کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے اس کے ایماء پر بھارتی فوج نے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔
جہاں تک آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے بھارتی حکومتی عہدیداروں کے دھمکی آمیز بیانات کا تعلق ہے یہ آر ایس ایس اور اس کے سیاسی ونگ بی جے پی کے عزائم کی عکاسی ضرور ہے مگر یہ پاکستان کو الجھائے رکھنے کی حکمت عملی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو چھوڑو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی فکر کرو، مودی جنونی ہے مگر بیوقوف نہیں ، وہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں محاذ کھول کر مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ حاصل کیا ہے اسے خطرے میں ڈالنے کا رسک کیوں لے گا یہ عام سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کو مستحکم بنانا اس کی اولین ترجیح ہونی چاہئے اس لیے پاکستان کو ا یک خاص سمت میں مصروف رکھنے کے لیے کنٹرول لائین پر خلاف ورزیوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا جائے گا۔
نہ جانے ہم اس شدید غلط فہمی کا شکار کیوں ہیں کہ مودی نے کشمیر کے حوالے سے اتنا بڑا فیصلہ بغیر سوچے سمجھے کیا ہے اور اب اسے عالمی سطح پر مخالفانہ ردعمل کا سامنا کر کے اپنی حماقت کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ مگر ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جب ہم بھارتی الیکشن میں مودی کی کامیابی کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے اور اس کی کامیابی سے مسئلہ کشمیر حل ہو نے کی خوش فہمی میں مبتلا تھے۔ تو وہ انتخابی جلسوں میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اعلانات کر رہا تھا اور بیرونی دنیا سے رابطے کر کے اپنے گھنائونے عزائم کے لیے اسے اعتماد میں لے رہا تھا اور وہ اس میں یقیناً کامیاب رہا ہے۔ کشمیر میں بھارتی مظالم پر امریکہ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور روس کی خاموشی اس کا عریاں ثبوت ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے حوالے سے ہمارے تقریباً سب ہی حکمران خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کی طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ نواز شریف نے مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی، اسے نواسی کی شادی میں مدعو کیااور اس کی ماں کو ساڑھیاں بھیج کر رام کرنے کی کوشش کی، آصف زرداری کا بیان ہے ہم قازقستان سے گیس پائپ لائین کی سہولت دیکر بھارت کی معیشت کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ دراصل یہ فراموش کر دیا جاتا ہے کہ متعصب ہندو اس سانپ کی طرح ہے اسے جتنا مرضی دودھ پلائو موقع ملنے پر ڈسے گا ضرور۔
نیا برطانوی وزیر اعظم یلسن جانسن وزیر اعظم عمران خان کا بہت قریبی دوست ہے۔ فرانس کے صدر میکرون نے جی سیون اجلاس کے موقع پر شرکاء سے مودی کی سائیڈ لائین ملاقاتوں کا اہتمام کیا۔ یاد رہے ٹیلی فونک رابطوں اور بالمشافہ گفتگو کے اثرات ممکن ہوا کرتے ہیں۔
یہ بھی بگلا پکڑنے کی حکمت عملی ہے۔ بگلے کے سر پر جلتی موم بتی رکھ دو، موم پگھل کر اس کی آنکھوں میں گرے گا اور پھر اسے پکڑا جا سکے گا۔ یہ امید لگانا کہ جب کبھی مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اٹھے گا اور وہاں کے حالات سامنے آئیں گے تو عالمی برادری بھارت کے خلاف اقدام کرے گی اول تو مودی پر اندرونی و بیرونی سطح پر کرفیو اٹھانے کے سلسلے میں کوئی دبائو ہی نہیں ہے اس لیے یہ کب تک جاری رہے گا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دوسرے بین الاقوامی میڈیا جس طرح مقبوضہ کشمیر کی سنگین ترین صورتحال سامنے لا رہا ہے کیا عالمی برادری کو اس سے حقیقت حال کا علم نہیں ہو رہا ۔ عالمی برادری جس کا سرخیل امریکہ ہے وہ تو بڑی مکاری سے کشمیر کو پاکستان اور بھارت کا دوطرفہ معاملہ قرار دیکر اپنا دامن بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک واجبی سی عقل رکھنے والا بھی جان سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے عمران خان کی موجودگی میں ثالثی کی پیشکش کے ذریعہ مودی کو گرین سگنل دیا تھا اور اب پاکستان کے وزیر اعظم کو جھوٹی تسلیوںاور پرفریب نعروں کے جال میں پھنسا کر پاکستان کو ایسے اقدامات سے روکنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جن سے مودی کے لیے مقبوضہ کشمیر میں اپنے قبضہ کو مستحکم کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پاکستان کو درجہ حرارت کم رکھنے کے لیے جو کہا گیا ہے یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے کیا پاکستان کی جانب سے بھارت کے لیے فضائی راستے کھلے رکھنا خود اپنی تجارت (جس کا 90 فیصد توازن بھارت کے حق میں ہے) سمجھوتہ ایکسپریس اور تھر ایکسپریس بند کرنے مگر واہگہ کے راستے افغانستان اور وسطیٰ ایشیا کے لیے تجارتی راستے کھلا رکھنا یہی پس منظر رکھتا ہے۔ اب تو بھارت سے ادویات اور طبی آلات کی تجارت پر عائد پابندی ختم کر دی گئی ہے وزارت تجارت نے یہ اقدام انسانی بنیادوں پر کیا ہے۔ عوامی سطح پر یہ اضطراب بھی غور طلب ہے کہ بھارت کی آٹھ لاکھ کی فوج کے جدید ہتھیاروں کا بھوکے پیاسے زخمی و بیمار کشمیری کب تک پتھروں سے مقابلہ کر سکیں گے۔ پاکستان میں احتجاجی مظاہرے، حکومتی عہدیداروں کے دھمکی آمیز بیانات اور 27 ستمبر کو اقوام متحدہ میں وزیر اعظم پاکستان کا خطاب انہیں کب تک بھارتی فوج کے مقابل کھڑا رکھے گا۔ بلاشبہ یہ سوالات سنجیدہ غور و فکر کا تقاضا کرتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024