امریکہ کی جانب سے ڈومور کا کوئی مطالبہ نہیں ہوا، تعلقات میں بہتری کا تاثر دیا گیا ، ملکی مفاد عزیز ہے حقیقت پسندانہ انداز میں اپنا موقف پیش کیا: شاہ محمود قریشی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ڈومور کا کوئی مطالبہ نہیں ہوا، تعلقات میں بہتری کا تاثر دیا گیا ،ملکی مفاد عزیز ہے حقیقت پسندانہ انداز میں اپنا موقف پیش کیا، امریکہ افغانستان میں امن و استحکام کے مشترکہ مفاد میں ملکر کام کرنا چاہتا ہے۔امریکی وزیرخارجہ کے ایک روزہ دورے کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات میں تعطل تھا اور سرد مہری تھی لیکن آج مجھے یہ کہتے ہوئے اطمینان اور مسرت محسوس ہو رہی ہے کہ آج کا ماحول یکسر بدلا ہوا تھا، یہ بڑی سخت گفتگو ہوئی کا تاثر جو بعض ٹی وی چینلز پر دیکھا اس کے بالکل برعکس ہوا، یہ تاثر کہ ڈو مور کا مطالبہ ہوا اس کے بالکل برعکس ہوا ،ڈومور کا کوئی مطالبہ نہیں ہوا بلکہ آگے بڑھنے کی خواہش کا پیغام ملا، پاکستان کا رویہ مثبت تھا میں نے پاکستان کا حقیقت پسندانہ موقف پیش کیا، میں کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہوں گا جس سے میں قوم سے غلط بیانی کروں ،ناجائز توقعات سے بڑھانا میرا ایجنڈا نہیں ہے ،پاکستان کے موقف کا دفاع کرنا میری ذمہ داری ہے، میں نے پاکستان کا نقطہ نظر بردباری ، خودداری اور ذمہ داری سے پیش کیا، ملاقات خوشگوار تھی، ملاقات کااختتام ایک اور دعوت نامے پر ہوا ،مجھے یہ بتاتے ہوئے مسرت محسوس ہو رہی ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے مجھے واشنگٹن آنے کی دعوت دی ہے ،میں انشاء اللہ جب اقوام متحدہ کے اجلاس کے لیے نیویارک جائوں گا تو اس دوران ان کے ساتھ ایک مذید ملاقات کا ارادہ رکھتا ہوں اور آج کی گفتگو کا وہاں سے فالو اپ کریں گے ،یہ ماحول جو میں نے آج مثبت دیکھا اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے بھی اپنی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں اب افغانستان کا حل سیاسی نوعیت کا ہے، یہ وہ موقف ہے جو عمران خان برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، ہمیں سیاسی حل کی طرف جانا ہوگا، مذاکرات کو ترجیح دینے کا ماحول بنا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس ساری جدوجہد کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ لیڈ کرے گا یقیناً اس میں دیگر عوامل بھی شامل ہوں گے اور جو ادارے وہاں اس عمل میں مصروف ہیں ان کا ان پٹ اور تعاون بھی ہوگا ان کی مشاورت بھی ہوگی، اس سے یہ عندیہ ملا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی گنجائش پید اہو گئی ہے ان کی دوسری بات بہت ہی معنی خیز ہے کہ امریکہ افغانستان پر بے جا وقت کے لیے اپنا فٹ پرنٹ نہیں رکھنا چاہتا اگرچہ آپ ٹائم لائن تو نہیں دے سکتے لیکن یہ وہاں کی صورتحال سے منسلک ہے اور ان کی اس بات سے ایک بہت بڑا اشارہ مل رہا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نے ان سے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اگر اس تعلق نے آگے بڑھنا ہے تو اسکی بنیاد سچائی پر ہونی چاہیے، بامعنی گفتگو ہونی چاہیے جو آپ سمجھتے ہیں کہیے میں سنوں گااور جو میں سمجھتا ہوں کہوں گا وہ آپ کو سننا ہو گا ،جب تک ہم ایک دوسرے کے تحفظات سامنے نہیں رکھیں گے اور سنیں گے نہیں تو پیشرفت نہیں ہو سکے گی، آج ہم نے اچھے انداز میں انکی خواہشات کو بھی سمجھا اور اپنی توقعات اور خدشات وہ بھی پیش کیں ،میں نے امریکی وزیر خارجہ کو واضح اشارہ دیا کہ انہیں دیکھنا ہو گا کہ نئی حکومت کا مینڈیٹ کیا ہے لوگوں کی اس سے کیا توقعات ہیں جب تک آپ اس کو نہیں سمجھ پائیں گے آپ ہمارے مائنڈ سیٹ سے آگاہ نہیں ہو پائیں گے، یہ ایک نئی حکومت ہے اس سے نئی توقعات وابستہ ہیں اور اسکی ایک نئی کوشش ہو گی ،ہم اپنی پالیسی کو از سر نو دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس تناظر میں ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مثبت اپروچ کا ارادہ رکھتے ہیں ،ہماری حکومت کا ایک اصلاحاتی ایجنڈا ہے جس کی بنیاد عوام کی بہتری ہے ،ہمارا مقصد عمل ہے استحکام علاقائی روابط اور اقتصادی ترقی ہے، اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے معاون بننا ہو گا ،اس لیے ہم ایک نئی اپروچ کے تحت آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، مجھے دعوت بھی ملی ہے اور فیصلہ بھی کیا ہے کہ میرا پہلا غیر ملکی دورہ افغانستان کا ہو گا افغانستان ہمارا پڑوسی بھی ہے، ہم ایک دوسرے کا سہارا اور ضرورت ہیں، جغرافیہ نے ہمیں جوڑا ہے، روایات کلچر اور مذہب نے جوڑا ہوا ہے لہذٰا ہمارا مستقبل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے ،وہاں امن خوشحالی ہو گی تو یقیناً پاکستان میں بھی ہو گی اگر پاکستان ترقی کرے گا تو اس کے فوائد افغانستان کو پہنچیں گے اس لیے میں عنقریب افغانستان جانے کا ارادہ رکھتا ہوں اور وہاں بات کو آگے بڑھائیں گے، آج کی گفتگو پہلے دفتر خارجہ اور بعد میں پرائم منسٹر سیکرٹریٹ میں ہوئی، وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی گفتگو میں ہم نے اس طرح مرتب کی جب امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات ہو رہی تھی تو اس میں وزیر اعظم پاکستان، آرمی چیف ، ڈی جی آئی ایس آئی ، جنرل جوزف شامل تھے ہم نے مل بیٹھکر تبادلہ خیال کیا اس کے پیچھے ایک سوچ تھی پہلے ایسے ہوتا رہا ہے کہ جب وہ یہاں آتے پہلے یہاں ملتے پھر جی ایچ کیو تشریف لے جاتے اس کے بعد قیاس آرائیاں ہوتیں سویلین حکومت کچھ اور فوجی قیادت کچھ اور کہتی ہے آج کی مشترکہ نشست سے بڑا واضح پیغام گیا ہے کہ ہم سب ایک پیج پر ہیں، کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں ہے، پاکستان کا مفاد سب کو عزیز ہے اور سب پر مقدم ہے، انشاء اللہ ہم ملکر اس مفاد کو آگے لیکر چلیں گے ،میں نے ان سے جہاں پر خواہش کی کہ افغانستان میں اگر مذاکرات میں آگے بڑھنا ہے تو پاکستان کی مدد درکار ہو گی یقیناً پاکستان اپنا مثبت کردار ادا کرے گا ۔میں نے ان پر واضح کیا کہ اگر ہم نے مغرب کی جانب دیکھنا ہے تو پھر ہمیں مشرق کی جانب سے سہولت درکار ہے ،مثال کے طور پر لائن آف کنٹرول پر آئے دن ہونیوالی خلاف ورزی کا کس کو فائدہ ہو رہا ہے، معصوم شہری متاثر ہوتے ہیں مگر فائدہ کسی کو نہیں ہوتا، یہ ضروری ہے کہ ہم اس سمت بھی دیکھیں اور اس میں کس طرح بہتری لاسکتے ہیں اور کون کیا کردار اداکرسکتا ہے، آج کی نشست سیر حاصل تھئی ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے تھا اور اس کو سمجھ کر مستقبل میں آگے بڑھنے کے لیے تھی ہم ملے سنا سمجھا اور نیویارک کی ملاقات میں اسے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ۔میں نے ان سے یہ بھی کہا جس پر انہوں نے اتفاق کیا کہ اس بلیم اور شیم گیم سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہمارے چیلنجز میں کئی چیزوں پر ہماری سوچ جداگانہ ہو گی لیکن ہمارے مشترکہ مقاصد بھی ہیں آج کی ملاقات نے دوطرفہ تعلقات کو دوبارہ بحال کرنے کا ماحول بنا دیا ہے اور جو تعطل تھا وہ ٹوٹ گیا ہے یہ ایک اچھی پیشرفت ہے ۔میڈیا نے جو خبر دی کہ 300ملین ڈالر روک دیے گئے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ خبر نئی نہیں تھی یہ فیصلہ ابھی آنا ہے اور پھر خبر بھی آنی ہے یہ فیصلہ اس حکومت کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ہو چکا تھا اور پہلی قسط 500ملین ڈالر کی سب کے سامنے ہے جو رک گئی تھی دوسری کے بارے میں چونکہ اب وقت آگیا تھا اور ان کو وہ پیسہ جو وہاں پڑا تھا اس کو ری پروگرام کرنے کا فیصلہ کرنا تھا ،انہوں نے کانگریس کو لکھنا تھا اور اس کے تحت انہوں نے کیا مگر یہاں یہ تاثر دیا گیا کہ قسط روک دی گئی ایسی بات نہیں تھی اس پر میں نے ان سے بات نہیں کی، ہمارا رشتہ صرف لینے دینے کا نہیں ہے خُوددار قومیں مختلف انداز میں سوچتی ہیں اللہ نے ہمیں ایسا ماحول اور خطہ دیا ہے کہ اپنے کھانے کی گندم اپنے وسائل سے اُگا سکتے ہیں، ہم اپنے لوگوں کو روٹی کھلا سکتے ہیں اور عزت کی دال روٹی کھانے میں بڑی گنجائش موجود ہے اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ کسی پیسے کی بات نہیں کرنی اصولوں کی بات کرنی ہے اور ایک نئی سمت کی بات کرنی ہے اس لحاظ سے آج کی نشست بڑی مفید رہی۔ میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں مذاکرات کو بڑھانے میں مدد کرے یہ ہماری سوچ کے عین مطابق تھا اور ہے اور ہم یقیناً اس سلسلے میں پوری سپورٹ کریں گے تا کہ ایک بامعنی مذاکرات ہوں تا کہ وہاں امن و استحکام ہو ،پاکستان کی قربانیوں سے کوئی غافل نہیں رہ سکتا کس قوم نے ہم سے زیادہ جانی و مالی قربانیاں دی ہیں آج کی نشست میں کوئی منفی پہلو دکھائی نہیں دیا آج کی نشست سننے اور سمجھنے کا ماحول تھا اور آگے بڑھنے کی خواہش تھی، آج پچھلے سال کی نسبت دن اور رات کا فرق تھا، ہم اتحادی بھی رہے ہیں، تاریخ گواہ ہے جب ملکر کام کیا ہے تو دونوں کو فائدہ ہوا ،یہ دوستانہ ماحول کو پیدا کرنے کا آغاز ہے ،ہم چیلنجز سے نمٹنا چاہتے ہیں، مغربی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں ،ہماری افواج نے وہاں کامیاب آپریشنز کیے، بارڈر مینجمینٹ کے لیے بہتر اقدامات کر رہے ہیں ،باڑ لگانے کاآغازکیا،ہم نے انصاف کے ساتھ ایک دو طرفہ روابط کا ایک نیا ڈھانچہ مرتب کیا ہے، آج ہمارے پاس افغانستان کے ساتھ جامع مذاکرات کا ڈھانچہ موجود ہے جو پہلے نہ تھا۔