سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ ایف آئی اے نے اومنی گروپ کراچی کے دفتر پر چھاپا مارا جس کے دوران کام کراؤن کمپنی دبئی کی دستاویزات ملیں جس کے بعد کمپنی کے دبئی کے دفتر میں چھاپا مارا تو بےشمار فارن کرنسی اکاؤنٹس کا ریکارڈ ملا۔ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ دبئی کی کمپنی سے ملنے والے اکاؤنٹس بھی انہی کے خاندان کے ہیں جب کہ ان اکاؤنٹس میں بھی پہلے اکاؤنٹس میں رقم جمع کرانے والے لوگ تھے اور دبئی سے رقم انگلینڈ اور فرانس بھی بھیجی گئی۔ڈی جی ایف آئی اے کے مطابق چھاپے کے دوران بہت سی ہارڈ ڈرائیوز بھی ملیں جن میں بہت سا ڈیٹا ہے، اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس ایسے لوگ ہیں جو اس ڈیٹا کو چیک کرسکیں جس پر بشیر میمن نے کہا کہ ہمارا سائبر کرائم ونگ اس پر کام کررہا ہے، ڈیٹا بہت زیادہ ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے پر ہمیں جے آئی ٹی بنانی چاہیے اور جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی بنانے پر کسی کو اعتراض تو نہیں۔ایف آئی اے کی جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی بنانے کی سفارش چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کسی کو کیا اعتراض ہوگا، ملزمان کو تو کلین چٹ ملنا ہے، اس معاملے سے ملزمان کا تو تعلق ہی نہیں، اس موقع پر انور مجید فیملی کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ہم نے جےآئی ٹی سے متعلق متفرق درخواست دی ہے اسے دیکھ لیں۔چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ وزیراعلیٰ کی انور مجید کے ساتھ گفتگو بھی موجود ہے، کہا گیا کہ انور مجید وزیراعلیٰ کے گھر پر رہ لیں، آپ باتیں رہنے دیں، ہم مقدمے کو پنجاب منتقل کر دیتے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024