ہندوستان نے دوطرفہ مذاکرات کے دوران تنازکہ کشمیر کو کبھی ترجیح نہیں دی: صدر مسعود
اسلام آباد (سٹی رپورٹر) صدر آزاد جموں و کشمیر مسعود خان نے کہا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کا لامتناہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کا قیام ہمیشہ ایک ایسا خواب رہا ہے جس کی تکمیل نہیں ہوئی ، اور اس کی بدولت پورا جنوبی ایشیاء ایک ہیجانی کیفیت کا شکار ہے۔ امن کے سارے راستے کشمیر سے گزر کر آتے ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں سے پاکستان کا لیس ہونا ہندوستان کو ایک آنکھ بھی نہیں بھاتا اور وہ عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی حتی المقدور کوششوں میں مصروف ہے۔ ان خیالات کا اظہار سردار مسعود خان صدر آزاد جموں وکشمیر نے NDU (نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی )میں ڈاکٹر اسماء شاکر خواجہ کی پاک بھارت تعلقات کے مسائل اور ان کے حل کے لئے کتاب Shaking Hands with Clenched fists, Confidence Building Measures between India and Pakistan کی تقریب رونمائی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر اسماء شاکر خواجہ کی کتاب حقائق کا مجموعہ ہے اور پاکستان کے اس دیرینہ ایشو پر زیادہ سے زیادہ بحث ہونی چاہیے ۔ صدر مسعود خان نے کہا کہ CBMsپیچیدگیوں سے مزین ہیں پاکستان ان تنازعات کا حل چاہتا ہے۔ اور مسئلہ کشمیر کو ہر صورت حل کرنے کا متمنی ہے۔ جبکہ ہندوستان اس مسئلے کے سٹیٹس کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اور اعتماد سازی کے اقدامات کی آڑ میں اس مسئلے سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ تقریب رونمائی میں سابق قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ، کرنل (ر) شاکر حبیب خواجہ ، میجر جنرل سمریز سالک، DG ISPR، سینئر پروفیسرز وزارت خارجہ اور فوج کے اعلیٰ آفیسران اور NDUکے طلباء و طالبات نے شرکت کی ۔صدرمسعود خان نے کہا کہ کہ ہندوستان محض دکھاوے کے چند اقدامات( جیسے پاکستان سے ہندوستان کے مختلف معاہدات معاہدہ کراچی ، معاہدہ لاہور اور معاہدہ اسلام آباد کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا) کے ذریعے دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ صدرمسعود خان نے کہا کہ فوجی CBMsمیں ایٹمی اثاثوں پر حملہ نہ کرنا، اور فوجی قیادت کے درمیان موثر رابطہ کاری اور ایٹمی ہتھیاروں کا حادثاتی طورپر استعمال سے اجتناب کرنا شامل ہے۔ سردار مسعود خان نے کہا کہ ہندوستان بس ایک رٹ لگائے بیٹھا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے جو کہ سر اسر بے بنیاد ہے اور گمراہ کن ہے۔ صدر نے کہا کہ دوطرفہs CBM (کانفیڈنس بلنڈن مئیرز) ہندوستان کے حق میں ہیں۔ چونکہ قبل ازیں بھی دوطرفہ مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا۔ یہ مذاکرات ہمیشہ بے سود ثابت ہوئے ہیں۔ چونکہ ان مذاکرات میں ہندوستان نے کبھی بھی کشمیر کو ترجیحاً مذاکرات کے ایجنڈے میں نہیں رکھا۔ ہندوستان نے ہمیشہ پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر ان مذاکرات کا گلہ گھونٹا ہے۔ صدر نے کہا کہ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں تین افراد کو شہید کر دیا گیا ہے۔ ہر روز کشمیریوں کو ظلم و ستم اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہاں ہندوستانی افواج انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ لیکن ان سب مظالم کے باوجود کشمیریوں نے ہندوستان کی بالا دستی اور اس کے غاصبانہ قبضے کو مسترد کر دیاہے۔ صدر نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور ہندوستان کوآرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے خاتمے کے لئے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں مندرجہ سفارشات پر عملدرآمد کرتے ہوئے ہندوستان کو کشمیریوں کے ساتھ اپنا وہ وعدہ نبھانا چاہیے جو اس نے حق خودارادیت کے ذریعے (استصواب رائے) سے کشمیریوں کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حوالے سے کیا تھا۔ صدر آزاد جموں وکشمیر نے اس موقع پر سی پیک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطے میں رابطہ کاری کو دوام بخشنے اور معیشت کو فروغ دینے کا سبب بنے گا۔ اس موقع پر لیفٹیننٹ جنرل ماجد احسان صدر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی نے صدر آزادکشمیر اور شرکاء کو خوش آمدید کہا اور ڈاکٹر اسماء خواجہ کا قیمتی کتاب لکھنے پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے مابین اعتماد سازی کے اقدامات کی پیچیدگیوں، موشگافیوں اور اس کی کثیر الجہت سمتوں کا گہرائی کے ساتھ تحقیق کرنے کے بعد جائزہ پیش کرنے پر ڈاکٹر عاصمہ کی کاوشوں کو سراہا۔ ڈاکٹر اسماء خواجہ نے اپنے تعارفی کلمات میں کہا کہ ان کے ذہن میں یہ کتاب لکھنے کا خیال دراصل پاکستان اور ہندوستان کے درمیان غیر مستحکم مذاکرات کو دیکھ کر ابھرا۔ انہوں نے کہا اس کتاب میں پاکستان کے نقطہ نظر کے مطابق اعتماد سازی کے مجوزہ اقدامات کا قتفصیلاً احاطہ کیا گیا ہے۔ جن پر عملدرآمد کرتے ہوئے مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر شاکر کے مطابق کسی بھی اعتماد سازی کے اقدامات کی کنجی سیاسی عزم میں مضمر ہوتی ہے۔ ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کا رویہ ہمیشہ جارحانہ رہا۔ امن پسند سیاسی راہنماؤں کے لیے سیاسی ماحول سکڑتا جا رہا ہے۔ اور ایسی کاوشیں کرنے والوں کو غداری کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کو بحرانوں کی صورت میں رابطہ کاری کے مراکز قائم کر کےs CBMکا ایجنڈہ اور اس کا طریقہ کار دوبارہ سے وضع کرتے ہوئے اپنے مابین غیر ہموار مشکلات کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔ دونوں ملکوں کو ثقافتی ، معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیتے ہوئے خطے کے لئے امن کی راہ پر پیش قدمی کرنا ہو گی۔ اس طرح کے چھوٹے اقدامات دونوں نیو کلیئر طاقتوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کا باعث بنیں گے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سابق قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ نے کہا کہ پاکستان امن کے حصول کا متمنی ہے اور وہ اپنے تمام پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیاء میں امن کا قیام ایک انتہائی پیچیدہ امر ہے۔ اور اسے دوطرفہ طریقے سے حل کرنا ایک مشکل ترین ٹاسک ہے۔ جنرل ناصر نے کہا کہ ہندوستان عالمی طاقتوں سے حمایت حاصل کرنے کی ہر ممکن سعی کر رہا ہے چونکہ وہ جس اثر و رسوخ کو کم کرنے کے سلسلے میں عالمی طاقتوں کے ایجنڈے سے مطابقت رکھتا ہے۔ بھارت کی اٹھان کا دارومدار امریکہ کی معاشی و معاشرتی افراتفری پر منحصر ہے، اس نے چین اور پاکستان کی دوستانہ کاوشوں کا ہمیشہ منفی جواب دیا اور ہندوستان کو اپنی اس روش پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔