نومنتخب صدر آئین کیمطابق اپنا غیرجانبدار کردار ادا کرکے خود کو ہر پارٹی کیلئے قابل قبول بنائیں
تحریک پاکستان کے صدارتی امیدوار عارف علوی پاکستان کے 13ویں صدر منتخب
پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی واضح اکثریت سے پاکستان کے تیرہویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔پارلیمنٹ کے نتائج کے مطابق عارف علوی کو 212 ووٹ ملے جبکہ ان کے مدمقابل متحدہ اپوزیشن کے امیدوار مولانا فضل الرحمان کو 131 اور اعتزاز احسن کو صرف 81 ووٹ ملے جبکہ عارف علوی نے صدارتی انتخاب میں کل 353 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے۔ مولانا فضل الرحمان 185 اور پیپلز پارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن 124 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔واضح رہے کہ صدارتی انتخاب میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے عارف علوی، متحدہ اپوزیشن کے مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن کے درمیان مقابلہ تھا جس میں تحریک انصاف کامیاب رہی۔چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا صدارتی انتخاب کے لیے ریٹرنگ آفیسر تھے جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور سینیٹ و قومی اسمبلی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پریذائیڈنگ آفیسر کی ذمہ داری سرانجام دیں، جیتنے والے امیدوار عارف علوی سے چیف جسٹس ثاقب نثار صدراسلامی جمہوریہ پاکستان کا حلف لیں گے۔
عارف الرحمان علوی 29 جولائی 1949ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے ڈی مونٹمورینسی کالج آف ڈینٹسٹری لاہور سے ڈینٹل سرجری کی سند حاصل کی۔ مشی گن یونیورسٹی سے 1975ء میں فن دندان سازی پروستھوڈونٹکس اور 1984ء میں ارتھوڈانٹکس میں ماسٹرز کیا۔ عارف علوی پیشے کے لحاظ سے ایک دندان ساز ہیں۔ ایشیا پیسفک ڈینٹل فیڈریشن اور پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن کے صدر کے طور پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہ سٹوڈنٹ یونین کے فعال رکن تھے۔ وہ جماعت اسلامی پاکستان کے یوتھ وِنگ اسلامی جمعیت طلبہ سے منسلک تھے اور کالج میں اسٹوڈنٹ یونین کے صدر رہے۔1996ء میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ ان کا شمار پی ٹی آئی کے بانی اراکین میں ہوتا ہے۔ 1996ء میں وہ پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کے ایک سال کیلئے رکن بنے اور 1997ء میں وہ پی ٹی آئی سندھ کے صدر بن گئے۔ عارف علوی نے سندھ صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے بطور پی ٹی آئی امیدوار حلقہ پی ایس-89 کراچی جنوبی 5 سے عام انتخابات، 1997ء میں شرکت کی، لیکن ناکام رہے۔ 2002ء میں حلقہ پی ایس-90 کراچی-2سے پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے لیکن ناکام رہے۔ علوی نے پہلی بار پاکستان قومی اسمبلی کی نشست پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر عام انتخابات، 2013ء میں حلقہ این اے250 کراچی12 سے جیتی۔ انہوں نے 77,659 ووٹ حاصل کیے اور خوش بخت شجاعت کو شکست دی۔ 2013ء کے انتخابات میں علوی واحد پی ٹی آئی امیدوار تھے جو سندھ سے منتخب ہوئے۔ پاکستان قومی اسمبلی کی نشست کیلئے عام انتخابات، 2018ء میں این اے-247 کراچی جنوبی-2 سے پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے اور منتخب ہو گئے۔ 18 اگست 2018ء کو پاکستان تحریک انصاف نے انہیں صدر پاکستان کے امیدوار کے طور پر نامزد کیا۔
عارف علوی کو پاکستان کے 13ویں صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ یہ پاکستان کا وہ اعلیٰ منصب ہے جس پر زیادہ عرصہ فوجی صدر متمکن رہے۔ آئین کی رو سے صدر کا انتخاب بھی پانچ سال کیلئے ہوتا ہے مگر اکثر وزرائے اعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکے یا ان کو وزارت عظمیٰ کی میعاد پوری نہیں کرنے دی گئی۔ منتخب صدور کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا تاہم مشرف کی آمریت کے بعد جمہوریت کے پٹڑی پر چڑھنے سے آصف علی زرداری اور ممنون حسین نے صدر پاکستان کے طور پر آئینی مدت مکمل کی ہے۔ آج ہماری سیاسی قیادتیں جمہوریت میں گرم و سرد دیکھنے کے بعد کافی میچور ہوچکی ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ وہ جمہوریت کو مزید مستحکم بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گی جس سے حکومت اور صدر دونوں اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہونگے۔
صدر عارف علوی کا انتخاب بڑی خوش اسلوبی سے انعقاد پذیر ہوا۔ عام انتخاب کے بعد اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پر متحد نظر آئی۔ اپنے اتحاد کو اپوزیشن نے گرینڈ اپوزیشن الائنس کا نام دیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی اور مضبوط اپوزیشن مانی جارہی تھی۔ اسکے متحد ہونے کی وجہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی تھی۔ پیپلزپارٹی کو توقعات‘ سرویز اور اندازوں سے زیادہ کامیابی ملی۔ سندھ میں اپوزیشن اتحاد پی ڈی اے پیپلزپارٹی کی کامیابی کو دھاندلی کے سے تعبیر کررہا ہے۔ پیپلزپارٹی بھی دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے گرینڈ اپوزیشن الائنس کا حصہ بن گئی۔ سندھ میں دھاندلی ہوئی یا نہیں‘ اگر ہوئی تو کس نے کرائی اور کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہوا۔ اس بحث سے قطع نظر پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے گرینڈ الائنس میں شامل ہونے سے اپوزیشن مضبوط ضرور ہوئی تھی مگر یہ اتحاد صرف سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب تک برقراررہ سکا۔ خورشید شاہ اپوزیشن کے امیدوار تھے‘ تمام اپوزیشن پارٹیوں نے انکی حمایت کی۔ مقابلہ کافی کلوز رہا مگر وزیراعظم کے انتخاب میں اپوزیشن الائنس بکھر کر رہ گیا۔ پیپلزپارٹی نے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار میاں شہبازشریف کو ووٹ دینے سے انکار کردیا۔ اس کا اثر پنجاب میں حکومت سازی پر بھی پڑا۔ عمران خان وزیراعظم تو منتخب ہوگئے مگر ان کو مطلوبہ تعداد سے صرف 4 ووٹ زیادہ مل سکے۔ اپوزیشن کے وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر انتشار کی شیرازہ بندی صدارتی انتخابات سے قبل نظر آنے لگی تھی۔ مولانا فضل الرحمان متفقہ امیدوار کی نامزدگی کیلئے متحرک ہوئے‘ مسلم لیگ (ن) انکے ساتھ تھی۔
وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر پیپلزپارٹی کے رویے کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نے اپنا صدارتی امیدوار لانے سے گریز کیا۔ تحریک انصاف نے عارف علوی کو صدر کیلئے نامزد کیا تو پیپلزپارٹی نے اعتزاز احسن کو انکے مقابل لانے کا اعلان کردیا۔ انکی مسلم لیگ (ن) نے حمایت کرنے سے انکار کر دیا‘ جواز یہ تھا کہ انہوں نے لیگی لیڈر شپ کے بارے میں پانامہ کیس اور محترمہ کلثوم نواز کی بیماری کے حوالے سے منفی بیانات دیئے تھے۔ مولانا فضل الرحمن مسلم لیگ (ن) کو اعتزاز احسن کی حمایت پر آمادہ کرنے کیلئے کوشاں رہے مگر لیگی قائدین کے دوٹوک موقف کے باعث انہوں نے خود کو مشترکہ امیدوار کے طور پر پیش کردیا۔ اب اپوزیشن کے ایک کے بجائے دو امیدوار میدان میں تھے۔ صدارتی انتخاب سے قبل کی رات گئے تک اپوزیشن الائنس اور پیپلزپارٹی اپنے امیدوار کے حق میں ایک دوسرے کو دستبردار کرانے کیلئے کوشاں رہیں مگر فریقین اپنے اپنے موقف میں لچک دکھانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ مولانا فضل الرحمان نے آصف زرداری سے طویل ملاقات کی جو مزید تلخیوں کا باعث بنی۔
اعداد و شمار پر نظر ڈالنے سے عارف علوی کی کامیابی کا الیکشن سے قبل بھی عندیہ ملتا رہا تھا۔ اپوزیشن متحد رہتی تو مقابلہ سخت ہو سکتا تھا۔ تحریک انصاف کی سب سے بڑی مخالف مسلم لیگ (ن) ہے۔ مولانا فضل الرحمان کیلئے تحریک انصاف ناقابل برداشت رہی ہے۔ پیپلزپارٹی گرینڈ اپوزیشن الائنس کا حصہ ضرور بنی مگر حکومت کی مخالفت میں ایک حد سے زیادہ جانے پر تیار دکھائی نہیں دیتی تھی۔ مشترکہ امیدوار سامنے لانا مسلم لیگ (ن) کی زیادہ ضرورت تھی گو اس نے پیپلزپارٹی سے تین نام مانگے تھے‘ مگر پیپلزپارٹی نے اعتزاز احسن کو تبدیل کرنے سے انکار کردیا۔ اعتزاز احسن کے بیانات کوئی ناقابل معافی نہیں تھے۔ پھر بھی ایک لیگی رہنماء کی طرف سے اعتزاز احسن سے اپنے بیانات پر معافی کا مطالبہ کیا گیا۔ بالفرض اعتزاز احسن معافی مانگ لیتے تو وہ مشترکہ امیدوار ہو سکتے تھے؟ غیرجانبدار حلقوں کی رائے میں مسلم لیگ (ن) کو لچک دکھاتے ہوئے اعتزاز احسن کے نام پر اتفاق کرلینا چاہیے تھا۔ مولاناآخری لمحے تک کہتے رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر کہیں تو وہ دستبردار ہوسکتے ہیں۔
عارف علوی کے صدر منتخب ہونے سے تحریک انصاف مزید مضبوط ہوئی اور اپوزیشن پہلے سے بھی زیادہ کمزور ہوگئی ہے جس کی ذمہ دار خود اپوزیشن ہے۔ اس سے اپوزیشن کا مستقبل بھی واضح ہو جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان پارلیمنٹ کے باہر حکومت کو ٹف ٹائم دینے اور احتجاج کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ دوبارہ انتخابات سے کم پر تیار نہیں ہیں۔ اپوزیشن جیسی اور جتنی بھی ہے گرینڈ اپوزیشن الائنس پہلے روز کی طرح پھر متحد ہوجاتی ہے تو بھی اسکی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ کسی کی خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹنے میں مددگار نہ بنے۔
منتخب صدر پارلیمنٹ کی اکائی اور وفاق کی علامت ہے۔ حلف لینے کے ساتھ ہی وہ پارٹی رکنیت سے دستبردار ہوکر غیرجابنداری کی علامت کا اظہار کرتا ہے۔ گو آج صدر کے پاس خاص انتظامی اختیارات نہیں ہیں مگر وہ سیاسی جماعتوں کے مابین یگانگت کی فضا پیدا کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ عارف علوی سے قوم توقع رکھتی ہے کہ وہ آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی غیرجانبداری کو یقینی بنا کر خود کو ہر پارٹی کیلئے قابل قبول بنائیں گے۔