میرے کماندار ‘ جدید تاریخ کے نامور گوریلا کمانڈر جلال الدین حقانی طویل علالت کے بعد چل بسے ہیں وہ برسوں سے علیل تھے کامل 60 برس میدان جنگ میں دو سپر طاقتوں آنجہانی سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی افواج قاہرہ سے دو بدو بر سر پیکار رہے اور شہادت کی آرزو لئے خالق حقیقی سے جا ملے۔ امریکی انہیں حقانی گروپ کا بانی‘ گروپ کا سربراہ قرار دیتے رہے جب کہ وہ ملا عمر مجاہد کے دست حق پرست پر شرعی بیعت کو اپنے لئے دنیا و آخرت کا توشہ قرار دیتے رہے۔ حقانی نے افغانستان کے میدان جنگ میں اپنے چار جانباز بیٹوں کی قربانی پیش کی۔ ان کے انتقال کی افواہیں گزشتہ 5 برس کے دوران تواتر سے وقفے وقفے سے پھیلائی جاتی رہیں لیکن منگل 4 ستمبر 2018 کی صبح افغان طالبان نے جلال الدین حقانی کے انتقال کا باضابطہ اعلان کیا ہے۔ تعزیتی بیان میں ان کے لئے جہادیوں سے دعائے مغفرت کی اپیل کی گئی ہے لیکن ان کے انتقال کی تاریخ اور تدفین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جلال الدین حقانی افغانستان کے جنگجوؤں میں ممتاز اہمیت کے حامل رہے ہیں جن کی طالبان اور القاعدہ دونوں سے قربت تھی۔ مدتوں پہلے جلال الدین حقانی نے اپنے مبینہ حقانی نیٹ ورک کی کمان اپنے چھوٹے بھائی عبدالعزیز حقانی کو سونپ دی تھی۔ اب تک سراج الدین حقانی سمیت ان کے صاحبزادے عمر حقانی اور محمد حقانی ،غاصب غیر ملکی افواج سے لڑتے ہو ئے شہید ہو چکے ہیں جبکہ دوسرے صاحب زادے بدرالدین حقانی شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے میں شہید ہوگئے تھے۔ جلال الدین حقانی کے سب سے بڑے بیٹے نصیر الدین حقانی کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کے علاقے بارہ کہو میں نامعلوم دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہو گئے تھے۔ جبکہ ان کا ایک بیٹا انس حقانی افغان جیل میں قید ہے۔
مرحوم جلال الدین حقانی نے 2001 میں اسلام آباد کا آخری دورہ کیا تھا اور اس کالم نگار سے انٹرویو میں امریکہ کے خلاف باضابطہ اعلان جہاد کیا تھا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ان کی تمام تصاویر اس کالم نگار کے گھر پر شبیر معصوم نے لی تھیں۔ امریکی میدان جنگ میں رسوائی اور ناکامیوں کے بعد ایک بار پھر طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں، بات چیت کی بساط بچھا رہے ہیں۔ افغان طالبان نے قیادت نے شہادتوں اور قربانیوں کی طویل داستان رقم کی ہے لیکن ان کی جنگی طاقت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس کا راز فلسفہ شرعی بیعت میں پوشیدہ ہے جو ملاعمر مجاہد اور دیگر امرائے جہاد کی پے در پے شہادتوں کے بعد بھی متحد اور طاقتور ہیں۔ بیعت کی شرعی حیثیت اور اہمیت کے بارے میں سطحی علم رکھنے والے اس اخبارنویس کوکمانڈرجلال الدین حقانی نے حقائق سے آگاہ کیا تھا۔ کون جلال الدین حقانی؟ ——جناب والا، کوئی اور نہیں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی، طالبان حکومت میں سرحدی امور کے وزیر اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف جن کے خوست میں قائم مرکز جہاد میں اس کالم نگار کو 80 کی دہائی کے اوائل‘ دورِ جوانی میں چند ہفتے گذارنے کا موقع ملا تھا۔ انہوں نے شرعی بیعت کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے انکشاف کیا کہ سوویت سرخ فوج کے خلاف جہاد کے دوران مْلامحمد عمر میری کمان میں عام سپاہی کے طور پر لڑا تھا۔ پھر وقت بدلا، حالات تبدیل ہوئے اور میں نے محمد عمر کے دست حق پرست پر شرعی بیعت کرلی جوکہ آخری سانس تک موثر رہتی ہے۔ اب اس بیعت سے میںکیسے انکار کرسکتا ہوں۔ یہ بیعت میری اور محمد عمر کی زندگی میں ختم نہیں ہوسکتی۔ اس کا خاتمہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ میں یا محمد عمر اپنے قدموں سے پھر جائیں ، مرتد ہوجائیں، اسلام سے منہ موڑ لیں۔ہم یہ کیوں کریں گے۔میں جارہا ہوں آخری سانس تک امریکیوں سے لڑنے کے لئے یہ میرا حتمی فیصلہ ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ اْسامہ بن لادن سمیت افغان شہریت حاصل کرنے والے تمام عرب جنگجو ؤں نے بھی ملا محمد عمر کی بیعت کررکھی ہے۔ گفتگو کایہ حصہ ’’آف دی ریکارڈ‘‘تھا۔ آج جب دونوں اساطیری کرداراپنے رب کے حضور پیش ہوچکے ہیں گذشتہ 25 برس میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گذر چکا۔اس گفتگو کو افادہ عام کے لئے تاریخ کی عدالت میں پیش کررہا ہوں۔
جلال الدین حقانی نے بتایا تھا کہ کٹھ پتلی انتظامیہ نے انھیں تین ولائتوں (صوبوں) کا مکمل انتظام اور افغا ن فوج کا سربراہ بنانے کی پیش کش کی ہے’’میرے پاس انکار کے سوا کوئی چارہ کار نہیںتھا‘‘—–پس معذرت کرلی۔ آپ نے ایسا کیوں کیا، روشن مستقبل ،طاقت اور اختیار، آخر آپ اور کیا چاہتے ہیں؟ گوریلا کمانڈر نے جواب دیا، صرف اپنے رب کی رضا——توشہ آخرت اور شافع محشرکے دربار میں سرخروئی چاہتا ہوں، بوڑھا آدمی ہوں اور کتنے برس جی لوں گا میں آخر ِشب، اپنی آخرت کیوں خراب کروں۔ امیر المومنین ملا عمر کے ہاتھ پر کی گئی شرعی بیعت کیسے توڑوں، میں واپس جا رہا ہوں سفاک غیر ملکیوں سے لڑنے،میدان مجھے پکار رہے ہیں۔۔۔ پھر اپنے جواں سال بیٹے سراج الدین حقانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ‘‘میں نے سراج کو اپنے مستقبل کا آزادانہ فیصلہ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ اپنی زندگی کی راہیں متعین کرنے میں کلی طور پر آزاد ہے۔ شرعی بیعت کی یہ فلاسفی ملا محمد عمر مجاہد کی اصل طاقت تھی اور ان کے بعد ملا اختر منصورنے بھی اسی فلسفہ بیعت سے قوت کارحاصل کی تھی اور آج بھی اسلامی امارات کی روحانی قوت اور فوجی طاقت ہے جس کی عالم فاضل امریکی دانشوروں اور ان کے اتحادیوں کو سمجھ نہیں آر ہی ‘ مدتیں بیت گئیں، سیاہ بالوں میں چاندی جھلکنے لگی ،وقت کے ساتھ ساتھ جوش وخروش مدہم پڑنے لگا، جہاد افغانستان کے علاقائی اور عالمی زاویے آشکار ہوئے تو پتہ چلا کہ ہم تو امریکی پیادے تھے۔
17برس قبل جمعہ،19اکتوبر 2001ء کو فجر کی نماز کے بعد خلاف معمول میرا فون جاگ اْٹھا۔ کوئی اجنبی پوچھ رہا تھا‘ آپ کون ہو؟ تصدیق کے بعد‘وہ بلا تمہید کہنے لگا’’کماندان صاحب نماز جمعہ کے بعد تمہارے گھر چائے پینا چاہتا ہے‘‘——کون کماندان؟ مجھے کچھ سمجھ نہ آیا‘ اس نے وضاحت کی، تفصیل بتلائی۔ کئی برس بعد اچانک میرا کمانڈر اپنے سپاہی کو شرفِ باریابی بخش رہا تھا۔ وہی جلال الدین حقانی جس کی شان میں امریکی صدر ریگن قصیدے پڑھتا تھا۔ جس کو آزاد دْنیا کامحافظ اور آزادی کا سپاہی قرار دیا تھا۔ خوشی اور غم کی متضاد کیفیات سے دوچار، یہ اخبار نویس تذبذب کا شکار تھا۔ سوچ رہا تھا کہ اگر ہمارے خفیہ اداروں نے میرے گھر پر دھاوا بول دیا تو کیا ہوگا اگر امریکیوں کو حقانی صاحب کے بارے میں ہوا لگ گئی توکیاہوگا؟ ان کی سلامتی کی ضمانت کون دے گا؟ رابطہ کارنے واضح کر دیا کہ کمانڈر صاحب کی سلامتی کی ذمے داری مجھ پر عائد نہیں ہوگی۔ مجھے صرف ریکارڈنگ کے لئے Two way sound system والے پروفیشنل وڈیو کیمروں کا انتظام کرنا ہوگا۔ ابھی نیوز چینلز کا آغا ز نہیں ہوا تھا۔ رازداری اس کھیل کاجزو اعظم تھی۔ مقامی روزنامے میں اپنے ساتھ کام کرنے والے بااعتماد فوٹو گرافر کو راز داری سے گھر پر بلایا۔ اس دن میں حقیقی معنوں میں خوف اوراس کے احساس سے آشنا ہوا۔ا س سوچ نے دماغ ماؤف کررکھاتھاکہ اگر کچھ غلط ہوگیا، کوئی انہونی ہوگئی تو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔جس کے بعد از خود فیصلہ کیا کہ چند اخبار نویس دوستوں کو زحمت دوں تاکہ احساس ذمے داری کا کچھ بوجھ ہلکا ہو سکے۔ نجی خبررساں اداروں سے شہرت پانے والے جاوید قریشی ، سندھی اخبارنویس ریاض شاہد اور سیاست کی بھینٹ چڑھ جانے والے ماضی کے شاندار رپورٹر عظیم چوہدری سمیت متعدد دوستوں کو نام بتائے بغیرایک اہم عالمی مہمان سے غیر رسمی ملاقات کی دعوت دی۔ جلال الدین حقانی کا حفاظتی عملہ سیکٹر G10/1 میں میرے گھر کی ریکی کرچکا تھا۔
جلال الدین حقانی اپنے بیٹے سراج اور چند دیگر افراد کے ہمراہ تشریف لائے۔حقانی صاحب نے چند لمحے خوست کے مرکز کی یادیں تازہ کیں‘ پھر بتانا شروع کیا کہ وہ افغان عبوری انتظامیہ کے وزیر خزانہ ہدایت امین ارسلا سے مذاکرات کے لئے اسلام آباد آئے تھے اوراب سہ روزہ ناکام مذاکرات کے خاتمے پر وہ واپس جارہے تھے اس دوران اْنہیں مدتوں بعد اپنا یہ بھولابسراپیادہ ،یہ سپاہی یاد آیا۔ جس کے ہاتھ میں اب بندوق نہیں ،قلم تھا۔پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی اخبارکا وقائع نگار جومشرق وسطی کے معتبر روزنامے ’’ گلف نیوز‘‘کے لئے بھی کام کررہا تھا۔
باضابطہ انٹرویوسے پہلے جلال الدین حقانی نے بتایا کہ ہم اْن سے انگریزی میں سوال کریں گے اور وہ عربی میں جواب دیں گے۔ فوری طورپر اس منطق کوسمجھ نہیں سکاتھا۔ بعد میں جب عالمی خبر رساں ادارے رائٹرزنے دو گھنٹے پر محیط یہ انٹرویو خرید لیا تو بوڑھے دانشمند کی حکمت عملی سمجھ میں آئی کہ عربی مسلمہ عالمی زبان ہے جس سے انگریزی میں ترجمہ معمول کی بات ہے جب کہ اْردو کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔یہ اْن کا آزاد دْنیا سے آخری رابطہ تھا۔ اس انٹرویو کی عالمی سطح پر پذیرائی نے اس کالم نگار پر نئی دنیاؤں کے در وا کر دئیے اس وقت معاصر دی نیوز کے ایڈیٹر اپنے پیارے جناب سلیم بخاری تھے انہوں نے رات گئے بین الااقوامی سکوپ فائل کرنے کا بتایا تو انہوں نے Stop Press کے تحت اس خبر کو شائع کیا جبکہ گلف نیوز کے ایشیائی شعبے کی ایڈیٹر نینا گوپال (Gopal NEENA) نے ڈالروں میں بھاری رقم اظہار تشکر کے طور پر بھجوائی تھی۔
اس دْنیا میں کوئی ناگزیر نہیں۔ سارے قبرستان اپنے اپنے زمانوں میں ناگزیر قرار پانے والوں سے بھرے پڑے ہیں۔’’بس نام رہے اللہ کا اور کسی کو دوام نہیں‘‘-یہ لازوال حقیقت ‘ اٹل سچائی، ہمیں اپنی بے بسی اور کم مائیگی کا احساس دلاتی ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024