6ستمبر 1965ء ____پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا دن، جب ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے اپنی پانچ گُنا فوجی طاقت کے ساتھ رات کی تاریکی میں اچانک پاکستان پر حملہ کر دیا۔ لاہور اور سیالکوٹ کے محاذ پر ہونے والا حملہ بڑا شدید تھا۔ جس میںبھاری توپ خانے اور چھ سو ٹینکوں کی یلغار تھی اور بھارتی پیدل فوج اپنے مذموم عزائم لیے پورے اہتمام کے ساتھ پاکستان کی طرف بڑھ رہی تھی۔ صرف سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگ ہی جان سکے تھے کہ بھارت ، پاکستان پر حملہ آور ہو چکا ہے جبکہ لاہور ، سیالکوٹ اور دیگر شہروں میں رہنے والے اس بھارتی شب خون سے بے خبر تھے۔ لائن آف کنٹرول پر کیا ہو رہا تھاکسی کو کچھ خبر نہیں تھی۔ میڈیا بھی اتنا عام نہیں تھا۔ صرف پرنٹ میڈیا تھا اور اخبارات بھی گنتی کے تھے، جن میں صرف یہ سرخی تھی کہ ’’بھارت نے رات کی تاریکی میں اچانک پاکستان پر حملہ کر دیا ہے اور تمام محاذوں پر گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے‘‘۔ اخبارات میں مزید تفصیلات نہیں تھیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ رات دو بجے جب اخبارات معمول کی خبروں کے ساتھ چھپنے کے لیے اپنے اپنے پریسوں میں چلے گئے تو بھارتی حملے کی یہ خبر آ گئی۔لہٰذا پریسوں سے اخبارات کی کاپیاں واپس منگوا کر حملے کی خبر کو شہ سرخی بنایا گیا اور کاپیوں کو واپس پرنٹنگ کے لیے بھیج دیاگیا۔ الیکٹرونک میڈیا میں صرف ریڈیو ہی لوگوں تک خبر کی رسائی کا واحد اور مؤثر ذریعہ تھا لیکن ان دنوں ریڈیو بھی اتنا عام نہیں تھا، شاوذونادرہی کہیں موجود ہوتا ۔پاکستان کے لوگ صبح اٹھے تو انہیں مختلف ذرائع سے حملے کی خبر مل چکی تھی۔ سب ریڈیو کے گرد جمع تھے۔ اگر کسی محلے میں ایک ریڈیو سیٹ تھا تو تمام محلے والوں نے اُس کا احاطہ کیاہوا تھا۔ سب خبروں کے انتظار میںرہتے کہ نئی خبر کیا آ رہی ہے اور محاذوں کی صورت حال کیسی ہے؟ بھارتی حملہ چونکہ بہت اچانک تھا اس لیے ہمارے لیے سوچنے سمجھنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ہماری فوج بیرکوں میں تھی۔ حملے کے وقت صرف رینجرز کے جوان سرحدوں پر ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ رینجرز کے پاس گنیں بھی عام نوعیت کی تھیں۔ اُن کے پاس کوئی بھاری اسلحہ یا توپ خانہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ بڑی پامردی سے بھارتی فوج کو سرحدوں پر روکے ہوئے تھے اور معمولی نوعیت کی گنوں سے اُن کا مقابلہ کر رہے تھے۔ اس دوران پاک فوج بھی اپنے سینئرز کی قیادت میں پیش قدمی کرتے ہوئے بیرکوں سے سرحدوں کی طرف روانہ ہو گئی۔ اور پھر گھمسان کا معرکہ شروع ہو گیا۔ بھارتی فوج کی پیش قدمی روک دی گئی۔ ناصرف بھارتی حملے کو ناکام بنایا گیا بلکہ ہماری فوج نے اُن کے علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ 7ستمبر کو پاکستانی اور بھارتی فضائیہ بھی حرکت میں آ چکی تھی اور ایک دوسرے کے اہداف پر بھرپور حملے ہو رہے تھے۔ ایک فضائی معرکہ بڑا تاریخی اور یادگار تھا۔ یہ معرکہ لاہور کی فضائوں میں ہوا جب پانچ بھارتی لڑاکا طیارے لاہور پر حملہ کرنے کے لیے اس کی فضائوں میں گُھس آئے جن کے مقابلے کے لیے سرگودھا ایئر بیس سے اڑنے والے ہمارے واحد جنگی جہاز نے انہیں روکا ۔ اس طیارے کو ایم ایم عالم اڑا رہے تھے۔ اُن کے مقابلے میں دشمن کے پانچ جنگی جہاز تھے۔ لیکن ایم ایم عالم تنہا ہونے کے باوجود انہیں خاطر میں نہ لائے اور مقابلہ شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دشمن کے پانچوں طیاروں کو لاہور کی فضائوں میں مار گرایا ۔ لاہور کے برکی محاذ پر فوج کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر پانے والے میجر عزیز بھٹی شہید نے جس طرح دشمن کے دانت کھٹے کئے اور اپنی دھرتی کی طرف آنے سے روکنے کی کارروائی کے دوران جس بہادری سے جامِ شہادت نوش کیا وہ دنیا کی عسکری تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔
65ء کے اس جنگی معرکے میں جہاں ہمارے کئی افسر شہید ہوئے وہاں بہت سے جوانوں نے بھی شجاعت کی کئی داستانیں رقم کیں۔ ان میں غازی مقبول حسین کا نام بھی شامل ہے جو رینک کے اعتبار سے سپاہی تھے لیکن بہادری میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ سپاہی مقبول حسین کا تعلق اٹک سے تھا۔ 65ء کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین بھارتی علاقے میں دشمن کے ایک اسلحہ ڈپو کو تباہ کرکے آئے تھے کہ راستے میں ایک بھارتی فوجی دستے سے اُن کی مڈبھیڑ ہو گئی جس سے وہ شدید زخمی ہو ئے۔ اُن کے ساتھی انہیں اٹھا کر واپس پاکستانی علاقے میں لے جانا چاہتے تھے کہ غازی مقبول حسین نے انہیں روک دیا کہ وہ اُن پر بوجھ نہیں بننا چاہتے، وہ انہیں وہیں چھوڑ کر چلے جائیں۔ بعد ازاں بھارتی فوج نے انہیں گرفتار کر لیا۔ وہ بھارتی قید میں رہے اور انہوں نے قریباً 40سال بھارتی جیلوں میں گزارے اور 2005ء میں رہا ہوئے۔انہیں ستارۂ جرأت سے بھی نوازا گیا۔ حال ہی میں غازی سپاہی مقبول حسین کا انتقال ہوا۔ اُن کے جنازے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی شرکت کی۔ یہ تو ایک سپاہی کی داستان ہے۔ ہمارے سینکڑوں گمنام سپاہی ایسے ہیں جو سپاہی مقبول حسین کی طرح 65ء کے جنگی معرکے میںاپنی بہادری و شجاعت کے ذریعے تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کے لیے رقم کر گئے ہیں۔ہمارے فن کاروں نے بھی اس جنگ میں پوری قوم اور فوج میں جو جوش و خروش و جذبہ اور ولولۂ تازہ پیدا کیا، اُس کی بھی کہیں مثال نہیں ملتی ۔ ریڈیو پاکستان لاہور نے ایسے جنگی نغمے تخلیق کئے کہ جنہیں سُن کر پاک فوج اور پوری قوم کا جوش و ولولہ بڑھ گیا۔نغمہ نگار، موسیقار، میوزیشنز اور بڑے بڑے سنگر جنگی نغمات کی ریکارڈنگ کے لیے ہمہ وقت ریڈیو پاکستان لاہور کی عمارت میں موجود رہتے، جہاں جنگی ترانے تخلیق پاتے۔ پُتر ہٹاں تے نئیں وِکدے، میرا سوہنا شہر قصور نی، جاگ اٹھا ہے سارا وطن، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو،میریا ڈھول سپاہیا جیسے سدا بہار جنگی نغمے ان ہی دنوں میں تخلیق ہوئے اور ریڈیو پاکستان کے ذریعے جہاں جہاں پہنچے ، ولولۂ تازہ پیدا کرتے چلے گئے۔1965ء کی جنگ ہم نے بہت بہادری سے لڑی۔ پوری قوم اور تمام سیاسی زعماء اس موقع پر ایک پیج پر تھے۔ ایسی یک جہتی جو ہم نے قوم میں دیکھی اُس کے بعد کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ 6ستمبر کا دن اُن تمام شہیدوں، غازیوں اور فن کاروں کے نام ہے جنہوں نے اس جنگ میں اپنا کردار ادا کیا۔ آج اگر ہم قوموں میں سربلند اور زندہ ہیں تو اِن سب کی بدولت ہیں۔
ہمارا1965ء کے تمام شہیدوں، غازیوں اور فنکاروں کو سلام۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38