تقسیم ہند کا تصور مختلف دانش ور اور ممتاز سیاسی قائدین پہلے دے چکے تھے، مگر اسے کسی قابل اعتماد پلیٹ فارم سے پیش نہیں کیا جا سکا تھا۔ستمبر1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس الٰہ آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس کا اچھوتا پہلو یہ تھا کہ اس کی صدارت شاعر مشرق علامہ اقبال کر رہے تھے۔ انہوں نے غیر معمولی فلسفیانہ بصیرت کی روشنی میں نہایت موثر انداز میں اس منزل مقصود کی نشاندہی کی جس کی طرف مسلمانان ہند شعوری یا غیر شعوری طور پر رواں دواں تھے۔ ان کے خطبے میں پاکستان کا تصور پیش کیا گیا:
’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان ایک ہی ریاست میں ضم ہو جائیں۔ یہ خود مختار ریاست خواہ برطانوی سلطنت کے اندر ہو یا برطانوی سلطنت سے باہر، شمالی مغربی ہند میں اس مسلم ریاست کی تشکیل میری نگاہ میں کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کا مقدر معلوم ہوتی ہے۔‘‘
مسلمانان ہندوجو اس سے پہلے خود کو اقلیت سمجھتے تھے اور اپنے مذہبی، سیاسی اور اقتصادی مفادات کے تحفظ کیلئے کوشاں تھے، وہ حضرت علامہ اقبال کی تجویز کے بعد خود کو ایک ایسی قوم سمجھنے میں حق بہ جانب تھے جو اپنی سرزمین میں اسلام کی اساس پر ایک آزادانہ اور عادلانہ نظام قائم کر سکے گا۔ اس تاریخ ساز خطبے کے بعد کیمبرج یونیورسٹی کے طالب علم چودھری رحمت علی نے’’پاکستان‘‘ کی اصطلاح وضع کی۔ اس میں پ پنجاب سے، الف افغانیہ( شمال مغربی سرحدی صوبے) سے ک کشمیر سے، س سندھ سے اور تان بلوچستان سے لئے گئے تھے۔ اس اصطلاح کے مطابق ایک طرف کشمیر پاکستان کا جزو لانیفک قرار پایا، جبکہ دوسری طرف ریاست جموں و کشمیر کا ہندو ڈوگرا مہاراجہ ہری سنگھ، مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا سامان بہم پہنچا رہا تھا۔
16مارچ 1846ء کو عہد نامۂ امرتسر کی رو سے انگریزوں نے ریاست جموں و کشمیر ایک ہندو ڈوگرا گلاب سنگھ کے ہاتھ 75لاکھ نانک شاہی روپوں کے عوض فروخت کر دی۔ ریاست کا رقبہ 84471مربع میل تھا۔ اس وقت کی آبادی کے حساب سے انسانوں کی قیمت تقریباً سات روپے فی کس پڑی تھی۔ گلاب سنگھ کا جاں نشین رنبیر سنگھ اپنے باپ کی طرح بالکل جاہل تھا۔ اس کے بعد مہاراجہ پرتاب سنگھ برسراقتدار آیا جو بہت سازشی ذہن کا مالک تھا۔ اس نے ریاست میں ڈوگرا خاندان کی طاقت میں غیر معمولی اضافہ کیا۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی، اس لئے اس نے اپنی برادری کا ایک لڑکا منتخب کرکے اسے اپنا متبنیٰ بنا لیا، لیکن ہری سنگھ کے باپ راجہ امر سنگھ کو یہ بات پسند نہ آئی جو اپنے بیٹے کو ریاست کا وارث بنانا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے ریاست کے طول و عرض میں سازشوں کا جال بچھا دیا، اس ساز باز میں اسے حکیم نور الدین سے بڑی مدد ملی جو مہاراجہ رنبیر سنگھ کے زمانے سے شاہی طبیب اور مرزا غلام احمد قادیانی کا دست راست بھی تھا۔یہ سازش کامیاب رہی اور انگریزوں نے1925ء میں انتہائی بدنام شخص ہر ی سنگھ کو ریاست کا مہاراجہ بنا دیا۔
گزشتہ ایک صدی سے مہارا جائوں اور ان کے رشتے داروں نے ریاست میں ایک مستبد، رجعت پسند اور مظالم حکومت قائم کر رکھی تھی اور راجہ ہری سنگھ کی گدی نشینی کے بعد مسلمانوں کے مصائب میں لامحدود اضافہ ہو گیا۔ ان پر بے رحمی سے ٹیکس لگائے گئے جس کے باعث وہ غربت کی پستیوں میں لڑھکتے گئے۔ ان پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند تھے، جبکہ ان پر ہندوئوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ ساگے ذبح کرنا خلاف قانون تھا اور اسے ذبح کرنے پر مسلمانوں کو سزائے موت دی جاتی اس استبداد کے خلاف تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں نے سیاسی حقوق کا مطالبہ شروع کر دیا۔ اس تحریک کے روح رواں وادی کشمیر سے شیخ عبداللہ (انی ریڈنگ روم پارٹی) اور جموں سے چودھری غلام عباس( بانی ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن) تھے۔ دونوں نے مل کر آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ مسلمانوں میں بیداری کی لہر دوڑ تی گئی جس سے ہندو اہلکاروں کو مسلمانوں کی جان، مال اور آبرو کے علاوہ ان کی متاع دین پر بھی ہاتھے کا موقع مل گیا۔
1931ء میں ریاستی میں ایک مسجد شہید کردی گئی۔ جموں میں ایک ہندو سپاہی نے قرآن حکیم کی بے حرمتی کی۔ کوٹلی میں مسلمانوں کو نماز جمعہ ادا کرنے سے روک دیا گیا۔ اس پر سرینگر سے ایک نوجوان عبدالقدیر اٹھا جس نے اپنی شعلہ بیانی سے بڑے بڑے جلسوں میں مہاراجہ حکومت پر شدید گولہ باری کی اسے قید کرکے جیل ہی میں اس پر مقدمہ چلایا گیا۔13 جولائی 1931ء کو ایک تاریخ ساز واقعہ پیش آیا کہ پرجوش مسلم نوجوانوں کے ایک جم غفیر نے جیل کا محاصرہ کر لیا اور مقدمہ کھلی عدالت میں چلانے کا مطالبہ کیا پولیس نے بے دردی سے ستائیس مسلمان شہید کر دیئے۔
کشمیر کے مسلم عوام پر تابڑ توڑ حملوں اور ریشہ دوانیوں کے خلاف لاہور میں زبردست مظاہرہے ہوئے۔ شملہ میں 25جولائی 1931ء کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم ہوئی جس کی صدارت کمال فن کاری سے مرزا بشیر الدین محمود نے کی اور یوں وہ اس کمیٹی کا صدر بن بیٹھا۔ اس نے اپنے منصب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بات کو ہوادی کہ ہندوستان کے مسلم زعما نے کشمیر کمیٹی پر مرزا محمود کی صدارت تسلیم کرکے اس کے والد مرزا غلام احمد قادیانی کا عقیدہ تسلیم کر لیا ہے۔ یہ تاثر گہرا کرنے کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں قادیانی مبلغین بھیجے گئے ۔ جن کی کوششوں سے پونچھ میں سادہ لوح مسلمانوں نے قادیانی مذہب ’’قبول‘‘ کر لیا۔ اس پر سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے پونچھ کا دورہ کیا اور ان کی ایمان افروز تقریروں کے نتیجے میں لوگ قادیانی مذہب سے تائب ہو گئے۔
حضرت علامہ اقبال بھی اس کمیٹی سے مستعفی ہو گئے جس کی صدارت پر مرزا بشیر الدین محمود قابض تھا اور اس کمیٹی کے سرپرست بن گئے جو مجلس احرار نے قائم کی تھی اس کمیٹی نے پورے ہندوستان میں کشمیر مسلمانوں کے حق میں رائے عامہ منظم کی اور پنجاب اور دوسرے صوبوں سے پچاس ہزار سے زائد رضا کار جدوجہد میں شریک ہوئے۔ ریاست کی جیلوں میں انہیں رکھنے کی جگہ نہ رہی، تو مہاراجہ کی درخواست پر برطانوی حکومت رضاکاروں کو پنجاب ہی میں گرفتار کرنے لگی۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ ریاست جموں و کشمیر میں پہلا ’’کشمیر ڈے‘‘ 14اگست 1931ء کو منایا گیا اور یہ بھی کہ اسی تاریخ کو پاکستان معرض وجود میں آیا جو بہت گہرا تاریخی، جغرافیائی اور سیاسی تعلق ظاہر کرتا ہے۔ (جاری)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38