پاکستان کا نام پوری دُنیا میں روشن کرنے میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں مگر بہت سے معاملات میں پورے پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریاں خیبر پی کے میں ہوں، کشمیر میں ہوں یا قحط جیسی صورتحال تھر میں ہو، بلوچستان میں طوفان آئے یا خیبر پختون خواہ ڈینگی کی لپیٹ میں آئے‘ مقامی حکومتوں سے بھی زیادہ فعالیت کے ساتھ شہبازشریف کی امدادی ٹیمیں ضروریات کے ساتھ وہاں موجود ہوتی ہیں۔ انڈومنٹ فنڈ پنجاب میں قائم کیا گیا ہے مگر اس سے استفادہ پورے مُلک کے طلباء و طالبات کرتے ہیں۔ ذہین سٹوڈنٹس کیلئے لیپ ٹاپس کی سکیم پورے مُلک میں پھیلا دی گئی ہے‘ سکالر شپس اور بیرون ممالک تربیت کیلئے بھی صوبائی حدود غیرمتعلق ہوچکی ہیں۔
پنجاب کی ترقی نے اِرتقاء کو بھی مات دے دی ہے۔ چین تیز رفتار ترقی میں شہرۂ رکھتا ہے۔ چین کے تعاون سے پاکستان میں شروع کئے گئے منصوبے معیار اور برق رفتاری میں چین سے کہیں آگے ہیں جس پر چین نے پنجاب سپیڈکی اصطلاح استعمال کی۔ صرف چین ہی نہیں بہت سے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے پنجاب حکومت نے معاہدے کئے۔ برطانیہ، جرمنی، جاپان، چین، سعودی عرب، ترکی، مشرق وسطیٰ اور دیگر دوست ممالک یہاں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری اور بے شمار منصوبوں میں تعاون فراہم کررہے ہیں۔ پنجاب کی ترقی و خوشحالی سے متاثر ہوکر دیگر صوبوں کے عوام اور وزراء تک یہ کہتے سُنے گئے ہیں کہ کاش شہبازشریف ہمارے صوبے کے وزیراعلیٰ ہوتے۔
آج شہبازشریف کو جہاں سیاسی مخالفین کی طرف سے معاندانہ رویئے کا سامنا ہے، وہیں پر اپنی پارٹی کی قیادت کی طرف سے بے اِعتنائی بھی برتی جارہی ہے۔ ان کو مسلم لیگ (ن) کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی طرف سے میاں نوازشریف کی نااہلیت کے بعد وزیراعظم بنانے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا مگر نہ جانے اس فیصلے کی کمند کہاں ٹوٹی کہ خاقان عباسی کو باقی عرصے کیلئے وزیراعظم رکھنے کا نوازشریف نے اعلان کردیا۔ نواز لیگ کے مرکزی صدرکیلئے قرعہ فال بھی شہبازشریف کے نام نکلا۔ عبوری طور یعقوب ناصر کو صدر بنا دیا گیا، 7 ستمبر کو انتخابات کا اعلان کیا گیا آج 5 ستمبر ہے مگر اس الیکشن کی کوئی تیاری نظر نہیں آتی۔ شہبازشریف کو اعلان کرکے وزیراعظم نہ بنا کے پارٹی کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ شہبازشریف کو پارٹی صدر بنا دیا جاتا ہے تو وہ پارٹی کو مضبوط بنانے کی پوری اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کام میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔
شہبازشریف کو وزیراعظم نہ بنانے کی حِکمت عملی سمجھ سے بالاتر ہے۔ شہبازشریف کو وزیراعظم بنانے کی حمایت عمران خان نے بار بار کی۔ پاناما لیکس سامنے آئی تو عمران خان شفاف تحقیقات کیلئے نوازشریف کے استعفے کا مطالبہ کرتے اور مشورہ دیتے کہ شہبازشریف کو وزیراعظم بنا دیا جائے مگر جب ان کو وزیراعظم بنانے کا اعلان کیا گیا تو عمران خان ان کیخلاف بھی بیان دینے لگے۔ شہبازشریف کو مُستقل وزیراعظم نہ بنانے میں عمران خان کے مخالفانہ بیانات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قوم کو یاد ہے کہ یوسف رضا گیلانی اور صدر زرداری پر کرپشن کے انگنت اِلزامات تھے۔ وزیراعظم گیلانی توہین عدالت پر نااہل ہوئے تو زرداری نے راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم نامزد کردیا جن پر کرپشن کے اگر گیلانی سے زیادہ نہیں تو کم الزامات بھی نہیں تھے۔ اب میاں نوازشریف نے جس کو وزیراعظم بنایا وہ بھی الزامات کی زد میں ہے جسے شیخ رشید مناظرے کا چیلج دے چکے ہیں اور ایک ریفرنس بھی ان کیخلاف درج کرا دیا ہے۔ میاں نوازشریف نے اداروں کے ساتھ شہبازشریف کی دستِ وگریباں نہ ہونے کی تجویز کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ اداروں کے ساتھ آمادہ ٔ پیکار افراد کو وزیر بنا کر یکطرفہ طور پر محاذآرائی کی فِضا پیدا کردی۔
نوازشریف کو فارغ کرانے کے بعد اپوزیشن شہبازشریف کو ٹارگٹ کررہی ہے مگر پارٹی کی مرکزی قیادت اپنی ادھیڑ بن میں پڑی‘ شہبازکے کندھے سے کندھا ملاتی نظر نہیں آرہی۔ پارٹی کے کئی لیڈر اشاروں کے مُنتظر ہیں۔ اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ (ن) کو کمزور کرنے کیلئے بے بنیاد الزامات لگارہے ہیں۔
چند روز قِبل ملتان میٹرو میں ایک فرضی چینی کمپنی کے کرپشن کے الزامات کی تشہیر کی گئی۔ ان میں کہا گیا کہ ملتان میٹرو پراجیکٹ میں کرپشن ایک چینی کمپنی کے نام پر ہوئی اور چینی حکومت کے ایک ریگولیشن ادارے نے چینی کمپنی کے بینک اکائونٹ میں پاکستان سے بھیجے گئے 17 ملین ڈالرز پر تحقیقات کیں اور پوچھا کہ اتنے پیسے کہاں سے آئے جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ ہم نے ملتان میٹرو پراجیکٹ سے یہ پیسے کمائے ہیں۔ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ چینی تحقیق کار اس معاملے کی چھان بین کیلئے 2 مرتبہ پاکستان آئے اور یہ معاملہ تقریباً سات آٹھ مہینے سے چل رہا ہے۔ ان الزامات پر شہبازشریف شدید افسردہ اور دلگرفتہ ہوئے۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں ان کا کرب اور بعض معاملات میں پیشکش ان کی سچائی کا ترجمان اور عکاس تھا۔ یہ الزامات نہیں تُہمت اور بُہتان تھے۔ انہوں نے اس دروغ گوئی اور بُہتان تراشی پر ایک نجی چینل کے کچھ صحافیوں اور پروگرام کے مہمان اعتزاز احسن کو لیگل نوٹس بھیج دیا۔ پریس کانفرنس میں شہبازشریف نے کہا کہ ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ 1997ء سے لے کر آج تک میرے تین ادوار میں اگر میری ذات کیخلاف سرکاری ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہوجائے تو قوم کا ہاتھ اور میرا گریبان ہوگا پھر جو کُچھ اُنہوں نے کہا وہ کوئی سچا اور کھرا انسان ہی کہہ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا میرے مر جانے کے بعد بھی اگر ایک پیسے کی کرپشن سامنے آجائے تو قبر سے میری لاش نکال کر لٹکا دیں۔
شہبازشریف کہتے ہیں، پہلا الزام یہ لگایا گیا کہ چین کی کمپنی یابیٹ اورکیپٹل انجینئرنگ اینڈ کنسٹرکشن پرائیویٹ لمیٹڈ نے ملتان میٹرو بس کے پراجیکٹ میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کام دیاگیا یا بطور سب کنٹریکٹر ٹھیکہ دیا گیا۔ اس معاملے کی پوری تحقیق کی گئی اور ریکارڈ سے یہ بات سامنے آئی کہ کیپٹل انجینئرنگ اینڈ کنسٹرکشن پرائیویٹ لمیٹڈ کوئی رجسٹرڈ کمپنی نہیں اور سٹیٹ بینک کے ریکارڈ کے مطابق اس کمپنی کا کوئی اکائونٹ ہی نہیں۔ پراجیکٹ کی کنٹریکٹرز نے سرٹیفکیٹ دیا کہ انہوں نے اس نام کی کسی کمپنی کو نا تو کوئی سب کنٹریکٹ دیا اور نہ ہی اس سے کوئی بزنس کیا۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کی طرف سے اس معاملے پر جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ کیا گیا مگر شریفوں کے حریفوں کے غبارے سے خود چین نے شہبازشریف کی دیانت اور صداقت کی گواہی دے کر ہوا نکال دی۔ پاکستان میں چینی سفارتخانے کے ڈپٹی چیف آف مشن لی جیان ژاؤ نے ملتان میٹرو منصوبے میں چینی کمپنی کے ذریعے کرپشن کے الزامات باضابطہ طور تردید کردی اور کہا کہ جیانگسو یابائٹ ٹیکنالوجی کارپوریشن لمیٹڈ کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔ لی جیان ژاؤ نے اپنے ٹوئٹ میں کہاکہ جیانگسو یابائٹ ٹیکنالوجی کارپوریشن لمیٹڈ پاکستان میں کام نہیں کررہی تھی اس کمپنی نے حکومت کو دھوکا دینے کیلئے چند جعلی خطوط بنائے جس پر اسے سزا دی گئی۔
ملتان میٹرو میں کرپشن کی تردید وزیراعلیٰ کی بے گناہی کا ثبوت ہے۔ چین کی نظر میں پاکستانی عوام کا احترام بڑھا ہے۔ منصوبوں میں شفافیت، معیار ، رفتار، اعتماد اور اعتبار میں مزید اضافہ ہوا ہے۔