ریلوے کی 4340 ایکڑ اراضی پر قبضے ہیں، سعد رفیق کا قائمہ کمیٹی میں انکشاف
اسلام آباد(آئی این پی) سینٹ قائمہ کمیٹی برائے ریلوے میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک بھر میں ریلوے کی 4340ایکڑ سے زائد اراضی پر تاحال قبضہ موجود ہے 3548ایکڑ ریلوے اراضی پر پرائیویٹ افراد قابض ہیں جبکہ 540ایکڑ سے زائد اراضی پر سرکاری ادارے قابض ہیں، ریلوے کی 251ایکڑ سے زائد اراضی دفاعی اداروں کے پاس ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کمیٹی کو بتایا کہ صوبائی حکومتوں نے سپر یم کورٹ کے حکم کے مطابق ریلوے کی زمین پر قبضہ واگزار نہ کر ایا تو انکے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے، ریلوے اراضی کا ملک بھر میں آڈٹ شروع کرا دیا گیا ہے، سندھ میں آڈٹ معاملات میں مشکلات ہیں، دو سال کے اندر پاکستان ریلوے کی زمینوں کا تمام ریکارڈ کمپیوٹرائز کر لیا جائیگا، پاک چین اقتصادری راہداری منصوبے میں ریلوے ٹریک کی اپ گریڈیشن کی فزیبلٹی رپورٹ تیاری کے مراحل میں ہے۔ ریلوے کو 32 ارب کا خسارہ تھا جو کم ہو کر 27ارب تک لے آئے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کے پی کے، بلوچستان اور پنجاب کے چیف سیکرٹریز اور اٹارنی جنرل کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیوروکر یسی فیڈریشن کو کمزور بنانا چاہتی ہے، سیکرٹریز اور اٹارنی جنرل نے اجلاس میں شرکت نہ کر کے غیر ذمے داری کا ثبوت دیا ایکشن لینے پر مجبور نہ کیا جائے۔ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین قائمہ کمیٹی سردار فتح محمد محمد حسنی کی زیر صدار ت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پاکستان ریلوے کی زمین قومی اثاثہ ہے کسی حکومتی شخصیت کسی بااثر گروپ ادارے خواہ اس کا تعلق حکمران جماعت سے ہی کیوں نہ ہو بلاتفریق ریلوے کی انچ انچ زمین واپس لی جائیگی اور کہا کہ صرف صوبہ خیبر پی کے نے ریلوے زمین کی90فیصد ملکیت ریلوے کے نام منتقل کر دی ہے اور کہا کہ صوبہ پنجاب کی طرف سے قسطوں میں دو ارب روپے وصول ہو گئے ہیں،صوبہ بلوچستان سے بھی رابطے میں ہیں سب سے زیادہ دقت صوبہ سندھ میں ہو رہی ہے۔ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے آگاہ کیا کہ دفاعی اداروں نے ہی سب سے زیادہ ریلوے اراضی ریگولرائز کرائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے اراضی کی طویل مدت کیلئے لیز ختم کر دی گئی ہے، ادارے کے 13 ارب روپے پی ٹی سی ایل پر واجب الادا ہیں۔ دریں اثناء سینٹ کی فنکشنل کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چیئرمین عثمان کاکڑ نے کہا کہ گوادر کاشغر روڈ معاہدے کے تحت46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی لیکن گوادر سے ژوب تک بجلی کا ایک بھی منصوبہ شامل نہیں، بلوچستان میں کیسکو کے بارے میں اگلے اجلاس میں مزید تفصیل سے غور ہوگا، بلوچستان میں کیسکو کے آفیسران اندرون بلوچستان نہیں جاتے، واپڈا فسران اور اہلکار بجلی کی چوری کا سارا بوجھ زرعی اور گھریلو صارفین پر ڈال دیتے ہیں، کیسکو کے بدعنوان آفیسر اور اہلکار ادارے کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، بلوچستان کیلئے تین ہزار ملازمتوں کی منظوری ہوئی تھی جس پر تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابد شیر علی نے کہاکہ وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر بلوچستان میں بجلی کے بحران کے حل کیلئے ترجیح بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں گے، صوبے میں زمینداروں کے مسائل کے حل کے لئے ضلعی سطح پر ایک مانیٹرنگ کمیٹی بنائی جائے گی جو تین ہفتے کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی، کیسکو میں بدعنوان اور غفلت کے مرتکب افرورں کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور محکمہ کو ایسے افراد سے صاف کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف نے خصوصی ہدایت کی ہے کہ بلوچستان پاکستان کا دل ہے اور وہاں بجلی کے بحران کے حل کیلئے ترجیح بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔