یہ المیہ صرف منیر نیازی مرحوم کا ہی نہیں تھا۔ ہم سب کے ساتھ ہی یہی معاملہ ہے ہم سب دیر کر دیتے ہیں اور تھوڑی نہیں بہت زیادہ دیر کر دیتے ہیں میں نے بھی یہ کالم لکھنے میں دیر کر دی ہے۔ہمارے محترم طاہر القادری صاحب جب پاکستان تشریف لائے تو تبھی اس بات پر غورو فکر کرنا چاہئیے تھا کہ وہ بیٹھے بیٹھائے کینڈا میں اپنی جنت کو چھوڑ اچانک کئے اس ملک میں تشریف لے آئے جیسے سالہا سال پہلے بطور اپنے وطن اور جائے رہائش وہ ریجکٹ فرماگئے تھے۔ اور پھر اچھے بھلے چلتے چلاتے ملک میں انقلاب برپا کرنے کی انہیں کیا سوجھی وہ عالم دین ہونے کے دعویدار ہیں تو انہیں علم تو ہو گا کہ ہمارے مذہب میں فتنہ وفساد برپا کرنے والوں کے کیا حکم ہے۔ ان سے کون مسلمان واقف نہیں ہے۔ مگر کسی نے ان سے جھوٹے منہ، بلکہ پھوٹے منہ بھی یہ نہ پوچھا کہ بھائی آپ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ یا کس نے آپکو اس کام کیلئے مقرر کیا ہے اور آپکو اچانک اس مصیبتوں کے مارے ملک اور حالات کے ستائے اسکے عوام کا کیا درد اٹھاکہ آپ انکی زندگی کو مزید اجیران بنانے کیلئے غیبی گولے کی طرح اس پر آن پڑے! کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی کو چین کے ساتھ ہونیوالے بہت سے بجلی پیدا کرنے کے معاہدے چین سے لیکر پورے پاکستان سے گزرتی ہوئی گوادر تک پہنچنے والی ہائی وے اور دیگر اس طرح کے بہت سے منصوبے کھل گئے ہوں۔ یا پاکستان کو اپنی ٹوٹی پھوٹی جمہوریت کے ساتھ آہستہ خرامی سے مگر ترقی کے راستہ پر چلتا دیکھنا برداشت نہ ہو رہا ہو۔ یا اسکے ایٹمی ہتھیار جو پہلے دن سے دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ انکو قابو کرنے کا بہانہ درکار ہو۔ آخر بیٹھے بٹھائے اتنے عرصے کے بعد ایک کینیڈین سٹیزن کو پاکستان اور اہل پاکستان کی ہمدردی کا کیا مروڑ اٹھا۔ کہ وہ یہاں بن بلائے زبردستی کا انقلاب برپا کرنے آن پہنچا۔ پاکستان کے ان ہمدردوں نے روز کے آنے والے سیلابوں اور زلزلوں میں مبتلا اور دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے زخموں سے کراہتے اس ملک اور اسکے عوام کی پہلے تو کبھی خبر نہ پوچھی نہ انکی دست گیری کی ذرا سی بھی کوشش فرمائی۔ اپنے خزانوں سے جو انہوں نے نجانے کہاں کہاں سے جمع کر لئے۔ پاکستان کے عوام کے کیلئے فتنہ و فساد برپا کرنے مزید زبوں حال کرنے کیلئے انہوں نے کنٹینروں اور دیگر انتظامات پر کروڑوں کے اخراجات کر ڈالے۔ دیر کرنے کا گلہ دراصل مجھے اپنے پنجاب کی صوبائی حکومت سے بہت زیادہ ہے۔ یا تو بآں شورا شوری کہ آئو دیکھا یہ تائو قادری صاحب کے ادارے کے گرد لگی باڑوں، رکاوٹوں اور بیرسٹرز کو توڑنے جا پہنچے۔ پھر جب ہماری پولیس نے اپنی حماقت اور جہالت میں سیدھی گولیاں چلا کر بارہ چودہ بندے مار دیئے اور درجنوں زخمی کر دیئے۔ کوئی نوٹس ہی بظاہر نہ لیا گیا اور اتنے بڑے سانحے کی ایف آئی آر کٹتے کٹتے ہی دو اڑھائی مہینے گزار دیئے گئے۔ معافی تلافی کی کوئی صورت نکالنی چاہئیے تھی۔ ایف آئی آر تو بہرحال کٹنی چاہئے تھی۔
انکی تو جتنی بھی دادرسی کی جاتی کم تھی خوں بہا لینا ان کا حق بنتا تھا۔ جس قیمت بھی یہ راضی ہوتے انہیں راضی کرنا بنتا تھا۔ قومی خزانے سے اگر گنجائش نہ نکلتی اور محترم وزیر اعلیٰ کواگر اپنی ذاتی جیب سے بھی کروڑوں خرچ کرنے پڑتے تو سودا گھاٹے کا نہ تھا۔ پھر لیڈران کرام کے لئے یہ واقعہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مترادف تھا اور جو اسے ہی کسی سنہری موقعہ کی تلاش میں تھے۔ انکو بھی ہر قیمت پر راضی کرنا اور منانا ضروری تھا۔ کیا تھا اگر آپ ان کے نفس کو تھوڑی کسی مزید خوراک بہم پہنچا دیتے انہیں اپنے ہی پیدا کئے ہوئے گورکھ دھندے اور بھول بھلیوں سے نکلنے کے لئے کوئی بہانہ درکار تھا۔ آپ انہیں یہ بہانہ فراہم کر دیتے تو انہیں اتنا زیادہ مزیدفساد برپا کرنے اور حکومت اور اہل ملک کو خوار کرنے کیلئے مزید زیادہ کوشش نہ کرنا پڑتی۔ حیرت تو یہ کہ کسی مشیر وزیر نے بھی جو گراں قدر معاوضوں پر حکومت کے گرد جمع ہیں اپنے ان داتائوں کو کوئی مناسب اور درست مشورہ نہ دیا۔ بہرحال ابھی بھی کوشش کر دیکھیں شاید گزشتہ غلطیوں کا کچھ نہ کچھ ازالہ ہو سکے۔ نیک نیتی ہے اپنے لئے نہیں دکھی لوگوں کیلئے ہی سہی کوئی پازیٹو اچھا قدم اٹھائیں شاید وہ نیک بومی رنگ کر کے آپ کی طرف لوٹ آئے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024