4ستمبر عالمی یوم حجاب ہے۔ لندن میں منعقدہ کانفرنس میں امت کے سرکردہ علماءاور مندوبین نے تحفظ حجاب کے ضمن میں 2004ءمیں اس کا اعلان کیا۔ یہ اعلان معذرت خواہ، لبرل، سیکولر دانشوروں کے اس پروپیگنڈے کا بھی جواب ہے کہ پردہ، حجاب صرف مقامی،کلچرل مسئلہ ہے اس کا اسلام سے تعلق نہیں۔ حجاب قرآن کا حکم، پاکیزہ معاشرے کے قیام، خاندانی نظام کے تحفظ اور عورت کی تکریم اور وقار کا ضامن ہے۔ ایک طرف فرانس، بلجیئم، ڈنمارک اور ہالینڈ میں عیسائی، لبرل انتہا پسندی کی بنیاد پر حجاب پر پابندی کے قوانین ہیں۔ دوسری جانب حکمِ ربی‘ اپنی حیا اور ایمان کے تحفظ پر جان دینے والی شہیدِ حجاب مروہ شر بینی ہے۔ یہ وہ خاتون ہے جسے بھری عدالت میں انسانی اور نسوانی حقوق اور آزادی¿ اظہار کے ڈھول پیٹنے والے یورپ میں (جرمنی) مغربی جنونی نے وحشیانہ چاقو مار مار کر جرمِ حجاب میں شہید کیا۔ ننھے بچوں کی ماں اور حاملہ مروہ کی شہادت حالیہ دجالی جنگ کے چہرے سے نقاب ہٹانے کے ان گنت اسباب میں سے ایک تھی۔ (گوانتامو، ابوغریب، باگرام، عافیہ، مساجد اور قرآن کی توہین، شعائر اسلامی کیلئے عدم برداشت،شانِ رسالت میں بیہودہ گستاخیوں کا لامنتہا سلسلہ، عراق پر جھوٹ کی بنیاد پر حملہ....) لیکن کیا کیجئے....
سو نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور
بے پردہ حقائق کی بے پردگی تو اس حال کو جا پہنچی کہ برطانوی تختِ شاہی کے وارث، سچی خلافت (پروٹیسٹنٹ) کے چرچ آف انگلینڈ کی سربراہ ملکہ برطانیہ کے پوتے، افغانستان میں صلیبی جنگ کے صلیبی مجاہد ہیری کا کارنامہ۔ سنتا جا شرماتا جا! شنید ہے کہ شہزادہ ہیری لاس ویگس میں لباس سے کلیتاً بے نیاز محوِ رقص ہے۔ یہ خبر پاکر برطانوی فوجیوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ موقع غنیمت جان کر شنید ہے کہ قطار اندر قطار فوجیوں نے بھی اتباع فرمایا۔ اپنے شہزادے سے اظہار یکجہتی اور خراجِ تحسین پیش کرنے کو ان سب نے برہنہ سلوٹ فرمایا۔ ہمہ گیر ہمہ پہلو اخلاق باختگی کا شکار یہ قومیں پتھر کے زمانے میں لوٹ چکی ہیں جہاں سے انکی (ہماری نہیں) بُوزنانہ (اولادِ بندر) زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ ہمارے باپ آدم علیہ السلام نبوت سے سرفراز کرکے عزت و تکریم کا لباس عطا کرکے اتارے گئے۔ (اے اولادِ آدم۔ ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری حیا پوشی کرتا ہے اور موجب زینت بھی ہے۔ اور تقوے کا لباس! یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ الاعراف۔26) یوم حجاب اسی سجودِ ملائک شرف کو سلام ہے۔ دوسری جانب دجالی لشکر کا برہنہ سلوٹ بھی آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ ہمارے ہاں بحث مباحثہ بحوالہ¿ دجال جاری ہے۔ وہاں عملی مظاہر دھڑا دھڑ امڈے چلے آرہے ہیں۔ شیطانیت اور دجل، اخلاقی، معاشرتی، معاشی، سیاسی، عسکری ہر سطح پر عروج پر ہے۔ لندن کے زیر زمین دیواروں پر شیطان کی تصاویر پر مبنی ٹائلوں کا ہر طرف دور دورہ ہے۔
برسرِ زمین مجسمے، باضابطہ شیطانی چرچ جس میں شیطان کی پوجا کی جاتی ہے امریکہ یورپ میں کھل چکے ہیں۔ شیطانی انجیل بھی چھپ چکی۔ میڈیا پر مکمل گرفت۔ دنیا صرف یک قطبی نہیں مانندِ دجال یک چشمی بھی ہے جسے برما، کشمیر، غزہ، شام دکھائی نہیں دیتا جسے ایک کمزور بے نوا عورت (عافیہ) کے ایک بچے کو مار دینے، دو سے جدا کرکے جرمِ بے گناہی پر 86 سال کی قید نظر نہیں آتی۔ سنائی نہیں دیتی۔ نارویجن شدت پسند جو صلیبی جنگجوﺅں کا لباس پہن کر یورپی ممالک میں مسلمانوں کو آباد رہنے کی سزا دینے کیلئے ٹوٹ پڑا اور 77 کو قتل کردیا۔ اسے تو 20 سال کی سزا ہو اور عافیہ ایک بھی قتل کئے بغیر 86 سال بھگتے! خراسان اور یمن پر دجال کےخلاف اٹھنے والے لشکروں پر تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیر کر خون کی ہولی کھیلے۔ قتلِ عام اور جنگی جرائم کا مرتکب ہو (ہم مربوط ڈرون میزائل باری میں اشتراک کھلے بندوں، علی الاعلان کریں!) گریٹر اسرائیل جس کا نقشہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں آویزاں ہے مکہ مدینہ تک توسیع کے عزائم کا کھلا اظہار ہے۔اسکی عملی صورت بحرِ احمر پر تعینات اسرائیلی بحری جہازوں کی موجودگی۔ چہار جانب پانیوں میں مکہ مدینہ کا امریکی بحری بیڑو ں سے محاصرہ.... ملحمة الکبریٰ (Armagadon)۔ بڑ ی دجالی جنگ کی تیاری وہا ں دیکھئے۔ اور یہاں تجاہل عارفانہ۔ دینی سیاسی جماعتوں کا، نظریاتی مملکت خدادادِ پاکستان کی قوم کا۔ (لبرل فاشسٹوں کا تورونا ہی کیا) یہاں یا تو۔ ’مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے‘ والی عالمی حالات سے بے رُخی، بے نیازی ہے۔ برساتی پتنگوں کی طرح ڈرون بین الاقوامی قوانین اور ہماری خود مختاری کی دھجیاں اڑاتے ہوئے آتے ہیں۔ موت کے یہ ہرکارے ہمہ وقت مسلط ہیں۔ فضائیہ منہ موڑے بیٹھی ہے بلکہ ہماری پالیسی المناک اور شرمناک ہے۔ بقول اوباما کے سیکورٹی مشیر ہیڈن کے انکشافات کے دنیا بھر میں امریکہ کے کئے جانےوالے حملوں کا 80 فیصد پاکستان میں ہوتے ہیں جہاں ہم آسمان کے مالک ہیں! مزیدبرآں دنیا بھر میں ڈرونز کی جابجا تفاصیل کتب و جرائد میں چھپ رہی ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ جن خدشات کا اظہار ہم کئی سال سے کر رہے ہیں وہ اب پایہ¿ ثبوت کو پہنچ چکے ہیں۔ زمین پر مکمل ہمارا پاکستانی سرکاری انٹیلی جنس نیٹ ورک، مقامی ایجنٹوں کو خرید کر نشاندہی کر کرکے ڈرون بلواتا، حملے کرواتا، تصدیق فرماتا بعدازاں انہی تمام کاموں کے بل جاری کرکے امریکہ ہمارے خرچے لوٹاتا ہے۔
پاکستان کے عوام بھی اس پیغام کے اسی طرح مخاطب ہی ہیں تاکہ اپنے بچے اور مولانا فضل الرحمن نے ارشاد فرمایا تھا: ’شمالی وزیرستان پر حملہ ہوا تو امریکہ کے لاف جہاد کا اعلان ہوگا‘۔ بسم اللہ فرمائیے۔ حملہ آور کسے کہتے ہیں؟ کفر پر تو صلیبی جہاد فرض عین ہوئے سالہا سال گزر گئے۔ 48 ممالک اپنے فرض پر لبیک کہتے جانیں قربان کر رہے ہیں۔ ہم کفایہ، عین کی بحثوں میں کھو گئے۔ لاشوں کے انبار لگ گئے۔ خونِ مسلم کی ندیاں بہہ گئیں۔ کفر نے تمام بین الاقوامی سرحدیں اور قوانین پامال کردئیے۔ آپ سب ابھی زرداری صاحب کی طرف سے اعلانِ جہاد یعنی امیر المومنین (!) کے حکم کے منتظر ہیں! ایک عیسائی لڑکی کے کیس پر 16امریکی سینیٹرز (ابنِ قاسمؒ ہوا کرے کوئی!) یورپی ممالک نے طوفان کھڑا کردیا تحفظ اور انصاف یکساں طور پر شہری کا حق ہے اقلیت ہویا اکثریت۔ اسلام آباد کی عیسائی رمشا یا مظلوم قبائلی شہری ہم نے مغرب کی تسکین کیلئے مولوی صاحب کو ہتھکڑیاں پہنا، آنکھوں پر پٹی باندھ، وحشیانہ گھسیٹا گھسیٹی کا نشانہ بنا کر تصویریں پیش کردیں! ملعون پادری ٹیری جونز یا یورپی شاتمِ رسول میں سے تو کسی کی آنکھوں پر پٹی نہ باندھی گئی! بس کردیجئے بس۔ نکل آئیے اس ایمانِ سوز جنگ سے۔ گریٹر اسرائیل اور دجالی جنگ اپنے تمام تر حقائق کے ساتھ اب کھل چکی ہے۔ فیصلہ آپکا ہے۔ پاکستان‘ مکہ مدینہ کے محافظوں کی سرزمین‘ یا گورے دجالیوں کی چراگاہ؟ ....
کانپتا ہے دل ترا اندیشہ¿ طوفاں سے کیا
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو
خوفِ باطل کیا کہ ہے، غارت گرِ باطل بھی تو!
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024