سید نذیر نیازی نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے ’’اسلام قید وطن سے آزاد ہے۔ اس کا مقصد ہے ایک ایسے انسانی معاشرے کی تشکیل جو مختلف نسلوں اور قوموں کو باہم جمع کرتے ہوئے ایک ایسی امت تیار کرے جس کا اپنا ایک مخصوص شعور ذات ہو۔‘‘ (اقبالؒ کے حضور ۔ صفحہ نمبر 15)
اسی ایک مخصوص شعور ذات نے اسلامی نقطہ نظر سے ایک ایسا نظریہ عطا کیا جس نے خون کی نفی کر دی‘ اگر باپ مسلمان ہے اور بیٹا کافر تو دونوں ایک دوسرے کے کچھ نہیں لگتے‘ چنانچہ ہمارے سامنے جنگ بدر اور جنگ اُحد کے واقعات کی روشن مثالیں موجود ہیں۔ حضور اکرمؐ ایک طرف تھے تو دوسری طرف ان کے چچا عباس بن عبدالمطلب‘ حضرت زینبؓ کے خاوند‘ حضور اکرمؐ کے داماد بھی مخالف کیمپ میں تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ساتھ تھے اور ان کے فرزند عبدالرحمن مخالف کیمپ میں تھے۔ حضرت عمرؓ ایک طرف تھے اور ان کے سگے ماموں دوسری طرف تھے۔ حضرت علیؓ حضور اکرمؐ کے ساتھ تھے تو دوسری طرف ان کے چچا اور بھائی عقیل تھے۔ حضرت ابو حذیفہؓ حضور اکرمؐ کے ساتھ تھے تو ان کے والد عتبہ بن ربیعہ مخالف کیمپ میں تھے۔ بہرحال حضرت صہیبؓ رومی تھے‘ حضرت سلمان فارسیؓ ایرانی تھے‘ حضرت بلالؓ حبشی تھے‘ یہ سبھی قریش میں سے نہ تھے لیکن ایک امت مسلمہ کے افراد تھے۔ اس نظریے نے یہ ثابت کیا کہ ملت اسلامیہ ایک اصولی روحانی‘ نظریاتی دینی‘ اسلامی اور قرآنی اساس کی مالک ہے جس میں حسب و نسب‘ رنگ و خون‘ مال و دولت‘ ثروت و حشمت کا کوئی دخل نہیں‘ یہی وہ نظریہ تھا جس نے برصغیر کے جغرافیائی زمان و مکاں کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا اور تخلیق پاکستان کا نعرہ بن گیا‘ پاکستان کا مطلب کیا ۔ لا الہ الا اللہ۔! اسی کلمہ کی روح نے وہ جذبہ عمل تخلیق کیا جسے نظریہ پاکستان کہتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں :
ملت بیضا تن و جاں لاالٰہ
سازِ مارا پردہ گرداں لاالٰہ
از یک آئین مسلماں زندہ است
پیکر ملت ز قرآن زندہ است
ایف کے دُرانی تحریر کرتے ہیں‘ سر عبدالرحیم نے کہا تھا ’’ہم ہندوستانی مسلمانوں میں سے کوئی افغانستان‘ ایران‘ سنٹرل ایشیا‘ چینی مسلمانوں‘ عربوں اور ترکوں کے یہاں سفر کر رہا ہو تو اس کی اجنبیت دور ہوتے ذرا دیر نہیں لگتی اور وہ یوں محسوس کرنے لگتا ہے گویا اپنے ہی گھر میں ہے‘ اسے کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس کے ہم عادی نہ ہو اور جو ہماری دیکھی بھالی نہ ہو‘ مگر اس کے خلاف ہندوستان میں جب ہم اپنی گلی عبور کر کے اس حصے میں چلے جائیں جہاں ہمارے ہم شہر ہندو رہتے ہیں تو ہم تمام سماجی معاملات میں اپنے آپ کو ہندوؤں سے باکل دور اجنبی پاتے ہیں۔‘‘
اسی ایک مخصوص شعور ذات نے اسلامی نقطہ نظر سے ایک ایسا نظریہ عطا کیا جس نے خون کی نفی کر دی‘ اگر باپ مسلمان ہے اور بیٹا کافر تو دونوں ایک دوسرے کے کچھ نہیں لگتے‘ چنانچہ ہمارے سامنے جنگ بدر اور جنگ اُحد کے واقعات کی روشن مثالیں موجود ہیں۔ حضور اکرمؐ ایک طرف تھے تو دوسری طرف ان کے چچا عباس بن عبدالمطلب‘ حضرت زینبؓ کے خاوند‘ حضور اکرمؐ کے داماد بھی مخالف کیمپ میں تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ساتھ تھے اور ان کے فرزند عبدالرحمن مخالف کیمپ میں تھے۔ حضرت عمرؓ ایک طرف تھے اور ان کے سگے ماموں دوسری طرف تھے۔ حضرت علیؓ حضور اکرمؐ کے ساتھ تھے تو دوسری طرف ان کے چچا اور بھائی عقیل تھے۔ حضرت ابو حذیفہؓ حضور اکرمؐ کے ساتھ تھے تو ان کے والد عتبہ بن ربیعہ مخالف کیمپ میں تھے۔ بہرحال حضرت صہیبؓ رومی تھے‘ حضرت سلمان فارسیؓ ایرانی تھے‘ حضرت بلالؓ حبشی تھے‘ یہ سبھی قریش میں سے نہ تھے لیکن ایک امت مسلمہ کے افراد تھے۔ اس نظریے نے یہ ثابت کیا کہ ملت اسلامیہ ایک اصولی روحانی‘ نظریاتی دینی‘ اسلامی اور قرآنی اساس کی مالک ہے جس میں حسب و نسب‘ رنگ و خون‘ مال و دولت‘ ثروت و حشمت کا کوئی دخل نہیں‘ یہی وہ نظریہ تھا جس نے برصغیر کے جغرافیائی زمان و مکاں کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا اور تخلیق پاکستان کا نعرہ بن گیا‘ پاکستان کا مطلب کیا ۔ لا الہ الا اللہ۔! اسی کلمہ کی روح نے وہ جذبہ عمل تخلیق کیا جسے نظریہ پاکستان کہتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں :
ملت بیضا تن و جاں لاالٰہ
سازِ مارا پردہ گرداں لاالٰہ
از یک آئین مسلماں زندہ است
پیکر ملت ز قرآن زندہ است
ایف کے دُرانی تحریر کرتے ہیں‘ سر عبدالرحیم نے کہا تھا ’’ہم ہندوستانی مسلمانوں میں سے کوئی افغانستان‘ ایران‘ سنٹرل ایشیا‘ چینی مسلمانوں‘ عربوں اور ترکوں کے یہاں سفر کر رہا ہو تو اس کی اجنبیت دور ہوتے ذرا دیر نہیں لگتی اور وہ یوں محسوس کرنے لگتا ہے گویا اپنے ہی گھر میں ہے‘ اسے کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس کے ہم عادی نہ ہو اور جو ہماری دیکھی بھالی نہ ہو‘ مگر اس کے خلاف ہندوستان میں جب ہم اپنی گلی عبور کر کے اس حصے میں چلے جائیں جہاں ہمارے ہم شہر ہندو رہتے ہیں تو ہم تمام سماجی معاملات میں اپنے آپ کو ہندوؤں سے باکل دور اجنبی پاتے ہیں۔‘‘