سلام ٹیچرز ڈے

Oct 05, 2024

انور خان لودھی

تحریر: انور خان لودھی

کم پڑھا لکھا یہ عاجز راقم خوش قسمت اس لحاظ سے ہے کہ اہل علم کی صحبت ہر دور میں نصیب رہی ہے۔ والد مرحوم کے دوستوں میں اساتذہ بھی تھے۔ بچپن میں جب دیکھتا کہ والد حضور اپنے ان دوستوں کو جو تدریس سے وابستہ تھے کو خاص محبت دیتے تو اساتذہ کا مقام و مرتبہ میرے دل میں راسخ ہو گیا۔ آج سلام ٹیچرز ڈے منایا جا رہا ہے۔ میرے دن کا آغاز بیگم کو سلام کہنے سے شروع ہوا کہ معلمہ ہیں۔ دنیا بھر میں سلام ٹیچرز ڈے منایا جا رہا ہے تو خیال آتا ہے کہ صرف آج ہی کیوں۔ ہر دن ہی اہل علم کا دن ہے۔ ایک دن سلام نہیں، انہیں ہمیشہ سلام سدا ہدیہ تبریک۔ مجھے آج اول جماعت سے اپنی آخری ڈگری تک سب اساتذہ یاد آ رہے ہیں۔ سلام ٹیچرز ڈے کا اعجاز سمجھیں ہر شخص کو اپنے اساتذہ کرام کو یاد کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے۔ عملی زندگی میں قدم رکھا تو لوح وقلم سے تعلق ٹھہرا۔ صحافت میں دل لگ گیا۔ ربع صدی پہلے ایسے سینئر ملے جو اس شعبے میں میرے استاد بھی بنے اور دوست بھی۔ عابد تہامی گورنمنٹ کالج لاہور ( اب جی سی یو) میں گریجوایشن میں ہمارے صحافت کے استاد تھے۔ روزنامہ جنگ جائن کیا تو ان کی شاگردی پھر سے کی۔ سونے پہ سہاگہ ہو گیا۔ کشمیر پریس انٹرنیشنل نیوز ایجینسی میں بیورو چیف اویس قاسم، نصراللہ ملک، عبدالودود مرحوم، محمود ملک سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ روزنامہ خبریں میں ضیا شاہد مرحوم، محمد اسحاق، عظیم نذیر استاد ٹھہرے۔ پرویز مشرف کی حکومت شروع ہوئی تو لاہور سے ایک نیا اخبار روزنامہ انصاف نکلا۔ کشمیر پریس انٹرنیشنل اور خبریں کے متعدد دوست نئے ادارے میں آگئے اور مجھے بھی وہاں آنے کی ترغیب دی۔ روزنامہ انصاف میں شجاع الدین، منیر بھٹی، محمد عثمان، سلمان عابد کے والد مرحوم عابد کریم اور ایڈیٹر و مالک جنید سلیم کی رہنمائی حاصل رہی۔ روزنامہ جنگ میں خاور نعیم ہاشمی، پرویز بشیر، مقصود بٹ، طارق جاوید مرحوم، جی آر اعوان مرحوم، بیدار بخت بٹ، فرح وڑائچ، صہیب مرغوب، اعجاز بٹ اور شاہد شیخ جیسی کریم شخصیات استاد کے روپ میں میری خوش قسمتی بنی رہیں۔ کالم نگاری میں اول اول کی پرواز کیلئے سعید آسی، جی آر اعوان، سعید واثق نے حوصلہ افزائی کی۔ تعلقات عامہ کیلئے ڈاکٹر شبیر سرور، ڈاکٹر ندیم گیلانی، کامران ملک، علی بخاری، ڈاکٹر تنویر قاسم اور ڈاکٹر انجم ضیاءنے حوصلہ افزائی اور رہنمائی عطا کی۔ ایجوکیشن سیکٹر کو اپنی تحریروں کا محور بنایا تو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے کالم نگار اور پی آر ایکسپرٹ کے طور پر مضبوط تعلق قائم ہوا۔ استاد اگر اپنے شعبے میں طاق ہو، مینجمنٹ اور لیڈرشپ سے بھی آشنا ہو تو پھر ان سے جامعات کی امامت کا کام لیا جاتا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر محمد علی شاہ، ڈاکٹر نیاز اختر، ڈاکٹر اطہر محبوب، ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا، ڈاکٹر منصور سرور، ڈاکٹر ضیاءالقیوم، ڈاکٹر سلیمان، ڈاکٹر کامران مجاہد، ڈاکٹر رو¿ف اعظم، ڈاکٹر سید حبیب بخاری، ڈاکٹر نظام الدین، ڈاکٹر شاہد منیر، ڈاکٹر اشتیاق، ڈاکٹر قیصر، اقرار اے خاں، ڈاکٹر زکریا ذاکر، ڈاکٹر شبر عتیق، ڈاکٹر مشاہد انور، ڈاکٹر بلال خان، ڈاکٹر محمد افضل، ڈاکٹر امجد ثاقب، ڈاکٹر اسلام، ڈاکٹر طفیل، ڈاکٹر سعید چشتی اور کچھ مزید اہل علم جن کا نام فی الوقت لکھنے سے رہ گیا کو میں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنی قابلیت اور قائدانہ صلاحیتوں سے استاد کے پیشے کو تکریم بخشی، جامعات کو بطور لیڈر چلایا، ان۔کی ترویج کی۔ نہال علم و فکر کی آب یاری کی۔ ان کو سدا سلام کیا جانا چاہئے۔ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی تعلیم نسواں میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ یہاں مجھے جزوقتی استاد رہنے کا موقع شعبہ ابلاغیات کی سربراہ ڈاکٹر انجم ضیائ نے فراہم کیا۔ پرنٹ جرنلزم کا کورس پڑھاتے ہوئے نئی نسل سے انٹر ایکشن اور دو طرفہ تدریس کے احساس نے مطمئن و مسرور کیا۔ لہذا آج کے دن مجھے بھی سلام ٹیچر کہنے کیلئے سٹوڈنٹس موجود ہیں۔ مشاہدہ کیا کہ اس یونیورسٹی میں وائس چانسلرز رہنے والی ممتاز خواتین اپنی لیاقت اور فہم و فراست میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ڈاکٹر بشریٰ متین مرحومہ، ڈاکٹر فرحت سلیمی، ڈاکٹر صبیحہ منصور، ڈاکٹر عظمیٰ قریشی، ڈاکٹر رخسانہ کوثر، ڈاکٹر فرخندہ منظور، ڈاکٹر بشریٰ مرزا اور ڈاکٹر شگفتہ ناز نے وائس چانسلر کی سیٹ پر بیٹھ کر ادارے کی بہبود اور تعلیم و تحقیق کی ترویج میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر کنول امین، ڈاکٹر صائقہ، ڈاکٹر روبینہ، ڈاکٹر انیلا کمال، ڈاکٹر فلیحہ کاظمی، ڈاکٹر شازیہ بشیر، ڈاکٹر رخسانہ ڈیوڈ، ڈاکٹر ارم انجم، ڈاکٹر طاہرہ مغل و دیگر خواتین کو بھی دیکھا کہ انہوں نے خود کو زیرک اساتذہ میں شمار کرایا اور اپنی انتظامی صلاحیتوں کی بھی دھاک بٹھائی۔ علم خیر ہے اور استاد سراپا خیر۔ اس دھرتی پر ارب ہا انسان آسائش سے جی رہے ہیں تو اس خیر کا عنواں، سبب، پس منظر، پیش منظر استاد ہی تو ہے۔ کوئی شخص سیکھے بغیر کامیابی کا تصور کر سکتا ہے ؟ نہیں نا ! تو پھر استاد کو استاد مانو، اسے ہر لحظہ سلام کرو، اپنے من کو چشم بنالو اور مرشد کو دیکھ دیکھ نہ رجو۔ بھلا ہو اقوام متحدہ کا کہ اس کے ذیلی ادارے یونیسکو نے 1994میں ٹھانا کہ اساتذہ کا دن بھی ہے منانا۔ اس کیلئے 5 اکتوبر کا انتخاب ہوا۔ پاکستان میں اس دن کو مقبولیت جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملی۔ سلام ٹیچرز سے ایک عمدہ عنوان ٹھہرا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ اس سال سلام ٹیچرز ڈے کا تھیم ہے کہ نئے عمرانی معاہدے کی جانب گامزن ہونے کیلئے اساتذہ کی آواز اور کام کو پہچانا اور سراہا جائے۔ مادہ پرستی نے پورے معاشرے کی طرح اساتذہ کو بھی متاثر کیا۔ مشن، جذبہ، کار خیر کچھ کچھ گرد آلود ہوا۔ استاد شاگرد کا روحانی رشتہ کمزور ہوکے آجر اور اجیر کے پھیکے اور بے رنگ ربط میں ڈھل گیا۔ چلو اب سلام ٹیچرز سے پر ہی سہی، اساتذہ کو سلام کرنے کا کم از کم ایک دن تو میسر ہوا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اساتذہ کے دن پر سیمینار اور تقریبات کے ذریعے معماران قوم کو سلامِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے اور ان کی اہمیت و افادیت اور ہر سطح پر ان کے بنیادی کردار کو اجاگر کیاجاتا ہے۔ میڈیا کا دور ہے۔ میڈیا نے کچھ برسوں سے ٹیچر ڈے کو ہائی لائٹ کیا ہے اور اساتذہ کو درپیش مشکلات ومسائل بالخصوص مناسب رہائش، ٹرانسپورٹیشن، پیشہ ورانہ استعداد میں اضافہ اور تعلم کے جدید طریقے اپنانے کے معاملے میں اساتذہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
 5 اکتوبر کو سلام ٹیچر ڈے ہے اور مغربی ممالک کے حکمران اساتذہ کو بن مانگے اور بغیر کسی مطالبہ کے اس دن پر مزید خوش خبریاں دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اساتذہ سے محض وعدے کئے جاتے ہیں۔ ایسے حالات اور واقعات میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغربی ممالک اور ہمارے ملک میں سلام ٹیچر ڈے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ وہ واقعی خلوص بھرے جذبات واحساسات سے اساتذہ کی عزت و تکریم کرتے ہوئے انہیں 5 اکتوبر کو سلام پیش کرتے ہیں جس کو انہوں نے ”سلام ٹیچر ڈے“ کا نام دے رکھا ہے۔
 معاشرتی بے رعنائیوں اور ریاستی پالیسیوں کی ریشہ دوانیوں نے استاد کا مرتبہ و مقام گھٹا کررکھ دیا ہے جس کی وجہ سے استاد بھی کنفیوڑن کا شکار ہے۔ایمانداری سے بتایا جائے کہ جس معاشرے میں استاد جو معلم انسانیت کہلاتا ہےکنفیوڑن کا شکار ہو، ایسا معاشرہ ترقی کے زینے چڑھ سکتا ہے؟

مزیدخبریں