منگل ‘ 27؍ صفر‘ 1443ھ‘ 5 اکتوبر 2021ء
کرکٹ کے سابق کپتان عمران خان کی تقلید کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین رمیز راجہ نے بورڈ کے اخراجات کم کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ دو کے بجائے ایک کپ چائے پئیں‘ اے سی کم استعمال کریں اور دفاتر سے جاتے ہوئے لائٹس بند کرکے جائیں۔
کرکٹ ٹیم کو نمبر ون بنانے کیلئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین رمیز راجہ کا جذبہ قابل تحسین ہے‘ اس وقت ہماری قومی ٹیم کی کارکردگی بہتر بنانے کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ تمام سہولیات کے باوجود اکثر ہماری ٹیم کی کارکردگی قوم کو مایوس کرتی نظر آتی ہے۔ پی سی بی کے نئے ’’راجہ‘‘ کی راج نیتی میںقوم کو یہ امید بندھائی گئی ہے کہ بورڈ کے صرف اخراجات ہی کم نہیں کئے جائیں گے بلکہ ٹیم کی کارکردگی کو بھی نمبر ون بنایا جائے گا۔ اللہ کرے وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوں اور قومی ٹیم کو اس نہج پر لے جائیں کہ پوری قوم ان پر اور قومی ٹیم پر فخرمحسوس کرے اور ان کا یہ منصب ملک و قوم کیلئے بابرکت ثابت ہو۔ لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ انکے چیئرمینی کا منصب سنبھالتے ہی آسٹریلین اور انگلینڈ کی ٹیموں نے پاکستان کا دورہ منسوخ کرکے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند کرنے کا پیغام دیا جو شاید ان کیلئے بدشگون سمجھا جائے گا۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے جب اقتدار کا منصب سنبھالا تو انہوں نے بھی سب سے پہلے وزیراعظم ہائوس کے بے جا اخراجات کم کرنے کی ٹھانی اور اس غرض سے وہاں پر موجود ملازمین کی فوج ظفر موج کو ختم کیا‘ مہمانوں کی سرکاری خرچے پر تواضع کا خاتمہ کیا تاکہ قومی خزانے پر اخراجات کا بوجھ کم کیا جا سکے ۔ وہ وسیع و عریض رقبے پر پھیلے وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کا بھی ارادہ رکھتے تھے‘ لیکن نجانے ان کا یہ منصوبہ کیوں ادھورا رہ گیا۔ بہرحال اخراجات کی کمی کے اثرات وزیراعظم ہائوس تک محدود نہیں رہے بلکہ آہستہ آہستہ اس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسکے اثرات قوم پر بھی نظر آنے لگے ہیں۔ رَج کے روٹی کھانے والی قوم اب دو سے ایک روٹی پر آگئی ہے‘ دال سبزی اور مصالحہ جات نہ صرف انکی دسترس سے دور ہو چکے ہیں بلکہ انکے گھروں میں بھی نظر نہیں آتے۔ بھوک سے نڈھال جسم سے روح یا تو خود ہی نکل جاتی ہے یا لوگ خودکشی جیسے انتہائی اقدام کرکے خود ہی غربت سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ چلیں اس طرح ملک سے غربت کا خاتمہ تو ہو رہا ہے۔ اب دیکھتے ہیں رمیز راجہ قومی ٹیم کو کس نہج پر لے جاتے ہیں۔ کہیں بورڈ کے اخراجات اتنے کم نہ کر دیئے جائیں کہ ٹیم کو دستانے اور ہیلمٹ وغیرہ سے ہی محروم کر دیا جائے اور ہاتھ میں صرف ایک بلا تھما کر کہا جائے کہ جائو کھیلو ۔
٭…٭…٭
عامر لیاقت نے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ مزید نہیں چل سکتا‘ عمران خان اور تحریک انصاف کا اللہ حامی و ناصر ہو جبکہ سیاستی پنڈت کا کہنا ہے کہ یہ ٹوپی ڈرامہ ہے۔
عامر لیاقت حکومت کے ساتھ ہی نہیں‘ وہ کسی کے ساتھ بھی مستقل مزاجی کے روا دار نہیں ہیں۔ چلیں حکومت سے تو اختلافات کی بنیاد پر علیحدگی اختیار کی جا سکتی ہے‘ لیکن ان کا یہ کھلنڈرا پن ہر جگہ نظر آتا ہے۔ شادیوں کے معاملے میں بھی وہ مستقل مزاج نہیں نظر آتے۔ ان کا یہ چلبلا پن قوم کو عموماً دیکھنے کو ملتا رہتاہے۔ شاید اسی تناظر میں سیاسی پنڈتوں نے انکے اس اقدام کو ٹوپی ڈرامہ قرار دیا ہے۔
ایم کیو ایم متحدہ کے ایک معروف رہنما بھی کئی بار پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیکر اپنے فیصلہ سے رجوع کرچکے ہیں۔ ایک مرتبہ تو انہوں نے اپنی والدہ کے کہنے پر اپنا استعفیٰ واپس لیا تھا۔ اس سے انکی سیاسی بصیرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ سیاست کے میدان کے پرانے کھلاڑی ہیں‘ اس میدان میں ایسے کیا معاملات چل رہے تھے جن کی وجوہات پر انہوں نے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیا تھا‘ بے چاری والدہ محترمہ کو ان کا کیا پتہ۔ بہرحال والدہ محترمہ کے اصرار پر انہوں نے استعفیٰ واپس لے کر قوم پر بہت بڑا احسان کیا ۔ اس وقت ہماری سیاست کا جو حال ہے‘ اس کیلئے قوم کو سنجیدہ اور متفکر سیاست دانوں کی ضرورت ہے جو قوم کے مستقبل کو سنوارنے اور ملک کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کرسکیں۔ بہرحال عامر بھائی کا اپنا فیصلہ ہے‘ اب جبکہ وہ مستعفی ہو چکے ہیں تو انہیں پارٹی سے علیحدہ ہو کر ملک و قوم کیلئے اپنی خدمات ادا کرنی چاہئیں۔ ضروری نہیں کہ کسی پارٹی کا عہدیدار بن کر ہی قوم کی خدمت کی جائے۔ بقول سیاسی پنڈت کے یہ عامر لیاقت کا ٹوپی ڈرامہ ہے تو پھر دیکھتے ہیں کہ وہ کتنی دیر تک اپنے اس فیصلہ پر اپنی مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟
٭…٭…٭
امریکی فوج نے ایسی ٹوپی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو نیند کے دوران نہ صرف فوجیوں کی دماغی کارکردگی پر نظر رکھے گی بلکہ دماغ میں جمع فاسد مادوں کی صفائی بھی کریگی ۔
ہیوسٹن میں دماغ کی صفائی کرنے والی ٹوپی جسے نیورو ماڈیولیشن ڈیوائس بھی کہا جاتا ہے‘ بیک وقت کئی ٹیکنالوجیز استعمال کریگی‘ مصنوعی ذہانت سے بھی استفادہ کریگی اور دماغ کی اندرونی کیفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری اور خوکار طور پر موزوں ترین حکمت عملی اختیار کریگی۔ کاش کوئی ایسی ٹوپی بھی ایجاد کرلی جائے جس سے امریکی فوجیوں کے دماغ کا وہ خناس بھی دور ہوسکے جسے پال کر وہ کمزور ملکوں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔پھر اس ٹوپی کو صرف امریکی فوجیوں تک محدود نہیں رکھا جائے گا بلکہ اس سے پوری نیٹو افواج کے دماغ کی صفائی کا کام لیا جائے گا۔ بالخصوص امریکی سیاست دانوں کے دماغ کی صفائی ضروری ہوگی۔ اس وقت امریکہ نے اپنی طاقت کے زعم میں دنیا میں اَت مچا رکھی ہے‘ بدمست ہاتھی کی طرح کسی بھی کمزور ملک پر دوڑ پڑتا ہے اور یہ کام وہ خود اکیلا نہیں‘ بلکہ دوسرے ممالک کی افواج کو بھی ساتھ ملا کر کرتا ہے۔ پاکستان پر تو اسکی خاص ’’شفقت‘‘ ہے جس پر بچہ جمورا سمجھ کر اپنی مرضی مسلط کر تا رہتا ہے اور پاکستان بھی اس بچہ جمورے کی طرح ’’جی استاد جی‘‘ کہتے ہوئے اسکے تقاضے پورے کرتا رہتا ہے۔ اسکے باوجود وہ اسکی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوتا۔ پاکستان نے تو ہمیشہ اس کا مخلصانہ ساتھ دیا‘ جس کے نتیجہ میں اسے بدترین دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا جس میں اس نے اپنے سیکورٹی افسروں سمیت 80 ہزار سے زائد شہریوں کی جانوں کی قربانیاں دیں اور معیشت کا الگ بیڑہ غرق کیا۔ اسکے باوجود امریکہ پاکستان سے خوش نظر نہیں آتا اور اس سے ڈومور کا تقاضا کرتاہے۔ اگر سائنس دان دماغی صفائی کے ساتھ ساتھ دماغی خناس صاف کرنے والی ٹوپی بھی بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر امریکہ کو دنیا پر اپنی مرضی مسلط کرنے سے بھی باز رکھا جا سکے گاجس نے اس کرۂ ارض کا سکون برباد کیا ہوا ہے۔
٭…٭…٭