قومی اسمبلی: بھاشا ڈیم جلد بنانے سمیت4 قراردادیں منظور: فاٹا سے متعلق فضل الرحمن کی تقریر پر احتجاج
اسلام آباد (خصوی نمائندہ + نیوز ایجنسیاں) قومی اسمبلی کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا گیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے سکیورٹی اخراجات صارفین سے وصول کئے جائیں گے جبکہ حکومت سے اپوزیشن نے سی پیک پر مغربی روٹ سے متعلق چینی سفیر کے حالیہ بیان پر وضاحت کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ایوان میں دیامیر بھاشا ڈیم کی جلد تعمیر کیلئے اقدامات، سرکاری ملازمتوں میں اسلام آباد کا علیحدہ کوٹہ مختص کرنے‘ اقلیتی خواتین کے مذہب کی جبری تبدیلی اور زبردستی شادی کی روک تھام‘ سوات ایئرپورٹ کا نام تبدیل کر کے میجر جنرل ثناء اللہ خان نیازی شہید ایئرپورٹ رکھنے سمیت الگ الگ 4 قراردادیں منظور کر لی گئی۔ توجہ مبذول کرانے کے نوٹس پر جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے پانی و بجلی چوہدری عابد شیر علی نے کہا کہ اقتصادی راہداری سکیورٹی کیلئے ایک فیصد بجلی کے صارفین سے وصول کئے جائیں گے۔ یہ میگا منصوبے کی لاگت صارفین پر منتقل کر دی جاتی ہے۔ نیلم جہلم منصوبے کے حوالے سے بھی لاگت صارفین سے وصول کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پہلے سے ایسا ہو رہا ہے۔ دریں اثناء نکتہ اعتراض پر عبدالقہار نے سی پیک کے مغربی روٹ پر چینی سفیر کے بیان پر حکومت سے مذمت کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اے این پی اور فاٹا ارکان نے سی پیک کے مغربی روٹ پر کام کی سست رفتارا ور مشرقی روٹ کو اہمیت دینے کے خلاف واک آؤٹ کیا۔ غلام احمد بلور نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ حکومت سی پیک منصوبہ میں کے پی کے مفادات کو نظر انداز کررہی ہے یہ منصوبہ صرف پنجاب کے لئے بنایا گیا۔ تمام اہم منصوبے پنجاب میں تعمیر کئے جا رہے ہیں حکومت ایسے اقدامات نہ کرے جس سے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہو۔ غلام احمد بلور نے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کر گئے ان کے ساتھ محمود خان اچکزئی و چند فاٹا ارکان بھی تھے۔ غلام احمد بلور کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر برجیس طاہر نے کہا کہ سی پیک منصوبہ چاروں صوبوں کے عوام کے مفاد میں ہے۔ حکومت کسی صوبے کے ساتھ زیادتی نہیں کر رہی۔ پنجاب کا منصوبہ قرار دینا غلط سوچ ہے ہم ایسی سوچ کو مسترد کرتے ہیں۔ اے این پی کے واک آؤٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی نے شرکت نہیں کی بعد میں وفاقی وزراء غلام احمد بلور کو مناکر واپس ایوان میں لے آئے۔ قبل ازیں قومی اسمبلی میں لال چند ملہی نے قرارداد پیش کی کہ ’’ اس ایوان کی رائے ہے کہ حکومت اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے مذہب جبراً تبدیلی اور جبری رشتہ ازدواج میں منسلک کئے جانے کی روک تھام کے لئے فوری اقدامات اٹھائے‘‘ اور قرارداد منظور کی جائے۔ خواجہ سہیل منصور نے کہا کہ تمام مذاہب کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ پارلیمانی سیکرٹری خلیل جارج نے کہا کہ اس حوالے سے بل پیش ہو چکا ہے، قرارداد کی ضرورت نہیں۔ لال چند ملہی نے کہا کہ قرارداد حکومت کے خلاف نہیں یہ منظور ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر عذرا فضل نے کہا کہ قرارداد منظور کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا، جمشید احمد دستی نے کہا کہ فاضل رکن کو بتانا چاہیے کہ کس جگہ مذہب تبدیل کرنے کے لئے طاقت کا استعمال ہوا یا جبر کیا گیا، تبلیغ مسلمانوں کا حق ہے، فاضل رکن ثبوت دیں اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ قرارداد پر تحفظات نہیں ہونے چاہئیں۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ حکومت اس پر قانون لانا چاہتی ہے، ڈاکٹر درشن نے کہا کہ قرارداد منظور کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ شیر اکبر خان نے کہا کہ قرارداد منظور کی جائے ٗڈپٹی سپیکر نے قرارداد ایوان میں منظوری کیلئے پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔اجلاس کے دور ان قومی کمیشن برائے خواتین (ترمیمی) بل 2016ء پیش کردیا گیا۔ ڈاکٹر نگہت شکیل خان نے تحریک پیش کی کہ قومی کمیشن برائے خواتین (ترمیمی) بل 2016ء پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ بل کی منظوری سے خواتین کو انصاف کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انہیں بااختیار بنانے میں مدد ملے گی، تحریک کی ایوان سے منظوری کے بعد ڈاکٹر نگہت شکیل خان کا بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ اجلاس کے دور ان قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کی جانب سے بے سہارا‘ یتامیٰ (بحالی و فلاح و بہبود) بل 2016ء پر رپورٹ پیش کردی گئی۔ قومی اسمبلی میں پروین مسعود بھٹی نے رپورٹ ایوان میں پیش کی۔ وفاقی سرکاری ملازمتوں میں اسلام آباد کا ڈومیسائل رکھنے والوں کے لئے علیحدہ کوٹہ مختص کرنے کے اقدامات اٹھانے کے حوالے سے پی ٹی آئی کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد مزید غور کے لئے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردی گئی۔ اجلاس کے دور ان قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے رکن اسد عمر نے قرارداد پیش کی۔ ملک بھر میں تعیناتیاں کوٹے کی بناء پر نہیں بلکہ میرٹ پر ہونی چاہئیں اگر دیگر صوبوں میں یہ نظام رائج ہے تو اسلام آباد کے شہریوں کو بھی یہ حق ملنا چاہیے۔ وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ اگر کوٹہ مختص کیا گیا تو اسلام آباد کے شہریوں کو نقصان ہوگا۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ اسلام آباد کے شہریوں کا شمار پنجاب کے کوٹے میں شامل ہے۔ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا کہ اسلام آباد کے لئے الگ کوٹہ مختص ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ اسلام آباد کے ساتھ امتیازی برتائو نہیں ہونا چاہیے۔ صاحبزاہ طارق اللہ نے بھی اسد عمر کی قرارداد کی حمایت کی۔ حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ پنجاب کو اپنے کوٹے میں سے اسلام آباد کو کچھ حصہ دینا چاہیے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ صوبوں کو بھی اس مشاورت میں شامل کرکے کوئی فیصلہ کیا جائے۔ سپیکر نے کہا کہ ایوان کی تمام مخصوص نشستوں پر موجود خواتین وزیراعظم بن سکتی ہیں۔ عبدالرشید گوڈیل نے کہا کہ کوٹہ سے خرابیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ عبدالستار باچانی نے کہا کہ کراچی کی آبادی پنجاب‘ خیبر پختونخوا‘ بلوچستان سمیت مہاجرین پر مشتمل ہے۔ مولانا قمر الدین نے کہا کہ کوٹہ مقرر کرنا زیادتی ہے۔ لال چند نے اسد عمر کی قرارداد کی حمایت کی اور کہا کہ کوٹہ سسٹم پر قانون کے تحت عملدرآمد ہونا چاہیے۔ سپیکر نے قرارداد کابینہ سیکرٹریٹ کے سپرد کر دی۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان سمیت متعدد ایم این ایز نے مولانا فضل الرحمن کی جانب سے فاٹا اصلاحات پر کی گئی تقریر پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا مولانا فضل الرحمن نے یہ کہہ کر ہم فاٹا میں کشمیر سے زیادہ ظلم کرتے ہیں بھارت کو پاکستان کے خلاف باتیں کرنے کا جواز فراہم کیا‘ علی محمد خان نے کہا ملک میں ضرب عضب چل رہا ہے۔ ہندوستان میں تحریک آزادی چل رہی ہے۔ ان حالات میں پاک فوج کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن کیا کابل کا مقدمہ پارلیمنٹ میں پیش کررہے ہیں ایف سی آر کو کالا قانون کہا۔ ثمن جعفری نے کہا نیشنل ایکشن پلان کو نو ایکشن پلان بننے سے بچایا جائے۔ طلال چوہدری نے کہا کہ ایوان میں کھل کر بات کرنے سے روکنا نہیں چاہئے، کوئی ادارہ مقدس گائے نہیں ہے، سب کی ایوان میں بات کریں گے۔ حب الوطنی پر شک نہیں کرنا چاہئے۔ نعیمہ کشور نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی سنجیدگی کا عالم ہے کہ فاٹا اور کشمیر پر بات ہورہی تھی تو ان کا قائد مری میں تفریح کررہا تھا اور سیلفیاں بنا رہا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ بعض انگریزوں کے تعزیراتی قوانین ختم کریں۔ ضرب عضب کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے بیان کو غلط رنگ دیا گیا۔ ڈپٹی سپیکر نے نعیمہ کشور کی جانب سے علی محمد خان کے لئے کل دا منڈا کے الفاظ حذف کرا دیئے۔ جمشید دستی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں اربوں روپے مولانا فضل الرحمن نے کھائے ہیں اور کارکردگی زیرو ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اب محمود خان اچکزئی افغانستان کی بات کیوں کررہے ہیں؟ محمود خان اچکزئی مراعات لے رہے ہیں حکومت ان کی سپورٹ کرتی ہے پاکستان کو مودی سے نہیں مودی کے یار سے خطرہ ہے پارلیمنٹ میں بھارت کے یار بیٹھے ہیں ان کے خلاف ایکشن کیا جائے۔ ڈپٹی سپیکر نے بھارت کے یار کا لفظ حذف کردیا۔ غلام سرور خان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے گفتگو سے واضح طور پر بھارتی موقف کو سپورٹ کیا۔ قائدین کو خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے الفاظ سے ملک کی سالمیت کو نقصان نہ پہنچے۔ سلمان بلوچ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے تقریر میں کابل کو جہلم اور فاٹا کو کشمیر سے تشبیہ دی ہم اگر کراچی میں ظلم و ستم کی بات کریں تو ہمیں غداری کے فتوے لگتے ہیں۔ ہمارے تحفظات دور کئے جائیں۔ غوث بخش مہر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کو آکر وضاحت کرنی چاہئے۔ شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ مفادات کی سیاست کرنے والوں کے چہرے بے نقاب ہونے چاہئیں۔ کیپٹن (ر) صفدر نے کہا کہ فاٹا میں کرپشن کرنے والوں کی تحقیقات پر کمیٹی بننی چاہئے۔ ایاز سومرو نے کہا کہ کشمیر پر آج قوم متحد ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ کرپٹ افسروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ جاوید لطیف نے کہا دفاعی لحاظ سے پاکستان کے تین محسن ہیں ذوالفقار علی بھٹو‘ ڈاکٹر عبدالقدیر اور میاں نواز شریف۔ پاکستان کے محسنوں کا نام لیتے وقت زبان کو لگام دینی چاہئے۔
اسلام آباد( خصوصی نمائندہ ) آڈیٹرجنرل نے الیکشن کمشن کے دواعلیٰ عہدوں پرتقرریوں کو خلاف ضابطہ قراردے دیا۔ تفصیلات کے مطابق آڈیٹرجنرل آف پاکستان کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بریگیڈئیرریٹائرڈ عباس خان کو19 مئی 2015 کوڈی جی ایڈمن تعینات کیا گیا، ڈی جی ایڈمن کے عہدے پرتقرری الیکشن کمشن کے 1989 کے رولزکے برعکس ہے، کسی بھی ادارے میں ریٹائرڈ فوجی افسرکی تعیناتی کے لیے وزارت دفاع سے مشاورت ضروری ہے۔ایڈیشنل ڈی جی جینڈرافیئرزکی تقرری میں بھی قواعد کو ملحوظ خاطرنہیں رکھا گیا۔ ایڈیشنل ڈی جی کے عہدے پرتعینات افسر16 سالہ تجربے کی حامل نہیں، متعلقہ عہدے پرتقرری کے لیے امیدواروں کے انٹرویوزکا ریکارڈ مرتب نہیں کیا گیا، اس کے علاوہ گریڈ 20 کے عہدے کے لیے مجاز اتھارٹی سے منظوری نہیں لی گئی۔ آڈیٹرجنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی کہ قواعد کے خلاف تقرری کے ذمہ داران کا تعین کیا جائے۔دوسری جانب الیکشن کمشن کی آڈٹ رپورٹ قومی اسمبلی میں بھی پیش کردی گئی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا الیکشن کمشن نے دیگرمحکموں کے ملازمین کو12 لاکھ 55 ہزارروپے اعزازیہ دے ڈالا جو کہ قواعد کے برعکس دیا گیا۔