مسجد بیت اللہ شریف کی توسیع کے بعد مطاف کھلا ہو گیا ہے۔ بیت اللہ دور سے نظر آنے لگا ہے۔ بے حد حسین لگ رہا ہے۔ حج اور نئے سال کا نور پھوٹ رہا ہے یہاں۔ جی کرتا ہے کہ بس تکتی جاﺅں اور اسی حال میں نعت آجائے۔ کعبہ پر جب پہلی نگاہ پڑی تو کہا اے رب کعبہ مجھے تجھ سے محبت ہے بس تو بھی مجھ سے محبت رکھ۔ سامنے کعبہ ہے اور اس کی تاریخ لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں۔ حضرت ابراہیم ؑکا قائم کردہ بیت اللہ بغیر چھت کے ایک مستطیل نما عمارت تھی جس کے دونوں طرف دروازے کھلے تھے جو سطح زمین کے برابر تھے جن سے ہر خاص و عام کو گذرنے کی اجازت تھی۔ اس کی تعمیر میں 5 پہاڑوں کے پتھر استعمال ہوئے تھے جبکہ اس کی بنیادوں میں آج بھی وہی پتھر ہیں جو حضرت ابراہیم ؑ نے رکھے تھے۔ خانہ خدا کا یہ انداز صدیوں تک رہا تاوقتیکہ قریش نے 604ءمیں اپنے مالی مفادات کے تحفظ کےلئے اس میں تبدیلی کردی کیونکہ زائرین جو نذر و نیاز اندر رکھتے تھے وہ چوری ہوجاتی تھیں۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہؓ سے حدیث بیان فرمائی ہے کہ :”حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم سے حطیم کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ بیت اللہ کا ہی حصہ ہے ؟ تو نبی نے جواب دیا جی ہاں!، حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا کہ اسے پھر بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کیا گیا ؟ تو نبی کا جواب تھا کہ تیری قوم کے پاس خرچہ کے لیے رقم کم پڑگئی تھی۔
میں نے کہا کہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے؟ نبی نے جواب دیا تیری قوم نے اسے اونچا اس لئے کیا تا کہ وہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل کریں اورجسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں۔
اور اگرتیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم کرنے سے انکارنہ کرتے تو میں اسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا“۔ قریش نے بیت اللہ کے شمال کی طرف تین ہاتھ جگہ چھوڑ کر عمارت کو مکعب نما (یعنی کعبہ) بنادیا تھا۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ روپے پیسے کی کمی تھی کیونکہ حق و حلال کی کمائی سے بیت اللہ کی تعمیر کرنی تھی اور یہ کمائی غالباً ہر دور میں کم رہی ہے لیکن انہوں سے اس پر چھت بھی ڈال دی تاکہ اوپر سے بھی محفوظ رہی، مغربی دروازہ بند کردیا گیا جبکہ مشرقی دروازے کو زمین سے اتنا اونچا کردیا گہ کہ صرف خواص ہی قریش کی اجازت سے اندر جاسکیں۔ اللہ کے گھر کو بڑا سا دروازہ اور تالا بھی لگادیا گیا جو مقتدر حلقوں کے مزاج اور سوچ کے عین مطابق تھا۔ حالانکہ نبی پاک (جو اس تعمیر میں شامل تھے اور حجر اسود کو اس کی جگہ رکھنے کا مشہور زمانہ واقعہ بھی رونما ہوا تھا) کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کو ابراہیمی تعمیر کے مطابق ہی بنایا جائے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے نبی پاک کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے685ءمیں بیت اللہ کو دوبارہ ابرہیمی طرز پر تعمیر کروایا تھا مگر حجاج بن یوسف نے693ءمیں انہیں شکست دی تو دوبارہ قریشی طرز پر تعمیر کرادیا جسے بعد ازاں تمام مسلمان حکمرانوں نے برقرار رکھا۔ خانہ کعبہ کی ہر ایک چیز عبداللہ بن زبیرؓ کی بنائی ہوئی ہے۔ سوائے اس دیوار کے جو حجر میں ہے۔ وہ حجاج کی بنائی ہوئی ہے۔ اسی طرح مشرقی دروازے کی چوکھٹ اور وہ اندرونی سیڑھی جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہے۔
عثمانی سلطان مراد رابع کے زمانے میں 19 شعبان 1039 ہجری کو صبح 8 بجے مکہ اور اس کے اطراف میں شدید بارش ہوئی۔ بارش سے سیلاب حرم شریف میں داخل ہوگیا اور کعبہ شریف کے دروازے کی چوکھٹ سے بھی بلند ہوگیا۔ دوسرے دن جمعرات کو عصر کے وقت کعبہ کی شامی دیوار دونوں طرف سے گر گئی اور اس کے ساتھ مشرقی دیوار کا کچھ حصہ بھی۔ مغربی دیوار بھی دونوں طرف سے چھٹے حصے کے بقدر گرگئی، چھت کا کچھ حصہ بھی گر گیا، چنانچہ سلطان مراد نے دوبارہ کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا۔ ایک سال میں یہ تعمیر مکمل ہوئی، اس طرح جس طرح حجاج نے بنوائی تھی۔ سلطان مراد کی تعمیر ہمارے اس دور تک باقی ہے۔
مسجد حرام میں کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریباً 21 میٹر کے فاصلے پر تہ خانے میں آب زمزم کا کنواں ہے جو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت ہاجرہؑ کے شیر خوار بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کی پیاس بجھانے کے بہانے اللہ تعالیٰ نے تقریباً 4 ہزار سال قبل ایک معجزے کی صورت میں مکہ مکرمہ کے بے آب و گیاہ ریگستان میں جاری کیا جو وقت کےساتھ سوکھ گیا تھا۔ نبی پاک کے دادا حضرت عبدالمطلب نے اشارہ خداوندی سے دوبارہ کھدوایا جوآج تک جاری و ساری ہے۔ 1953ءتک تمام کنوﺅں سے پانی ڈول کے ذریعے نکالاجاتا تھا مگر اب مسجد حرام کے اندر اور باہر مختلف مقامات پر آب زم زم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ آب زم زم کا پانی مسجد نبوی میں بھی عام ملتا ہے اور حجاج کرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ لیکن چند برسوں سے زم زم فروخت ہونے لگا ہے۔ عازمین کو جہاز کے سفر میں چھوٹے سائز کی فی بوتل دس ریال لے جانے کی اجازت ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38