”عالمی یوم اساتذہ اور خواہشات ناتمام“
شعبہ تعلیم قیام پاکستان ہی سے تجربات کی آماجگاہ بنا لیا گیا اور ہر دور میں نت نئے تجربات کئے جاتے رہے۔ آج تک کوئی ایک پالیسی بھی مستقل مزاجی کے ساتھ تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے رائج نہ ہو سکی۔ سیاسی لوگوں نے اس شعبے کو ”یتیم اور مسکین“ جان کر اسے اکھاڑہ بنا دیا اور خصوصاً اساتذہ اور دفتری لوگوں کو تبادلہ جات اور دیگر ”ڈیوٹیوں“ کے ذریعے مسلسل ”پریشان“ رکھا جس پر اساتذہ ہمیشہ ”پشیمان“ رہے۔
نتیجہ اسکا بھلا ہو کہ یا برا کوئی
ہمیں کیا ہم نے تو اک تجربہ ہی کرنا ہے
ایک طرف تو استاد رفعت و شان کا مالک ہے لیکن دوسری طرف اسے شکایت یہ ہے کہ معاشرہ اس کے معاشرتی مقام سے نہ صرف غافل ہے بلکہ بعض اوقات تو قصداً بے اعتنائی برت رہا ہے جو استاد اپنا خون جگر دیکر گلشن علم و ادب کی آبیاری کر رہے ہیں اور دل کی سادہ تختیوں پر موتی بکھیر رہے ہیں۔ ان سے فیض یاب ہو کر انتظامی عہدوں پر متمکن حضرات اپنے اساتذہ یعنی محسنوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کی مثال دی جاتی ہے کہ وہاں اساتذہ کا حد درجہ احترام ہی نہیں کیا جاتا بلکہ تنخواہیں اور دیگر مراعات بھی بے مثل و بے مثال ہیں۔ عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت سیاستدان و سماجی لوگ ان ممالک میں اساتذہ کے گن گاتے اور دل سے قدر کر کے احساس تفخر دلاتے ہیں لیکن تلخ نوائی معاف یہاں تو ایک پولیس کانسٹیبل ہی نہیں سنبھالا جاتا۔ تھانہ کلچر میں بھی اساتذہ کیلئے کہیں Soft Corner نظر نہیں آتا۔ تعارف کرانے پر طنزیہ مسکراہٹ اپنی حیثیت کا خوب ادراک دلاتی ہے۔ سیاستدان‘ زمیندار‘ وڈیرہ شاہی اور خصوصاً دیہاتوں میں اساتذہ آج بھی ”منشی صاحب“ اور ”ماشٹر“ کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔
اس ذہن کی پستی کا بھی علاج کرو
اگر جہان میں بستی کا نام رکھنا ہے
سلام ٹیچرز ڈے یا عالمی یوم اساتذہ پر معاشرتی اور حکومتی بے حسی کا ماتم پہلی بار نہیں ہو رہا۔ ہر بار ہر لکھاری کچھ ایسے ہی ملتے جلتے خیالات و جذبات سے اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید اس ٹیچرز ڈے پر کوئی اچھی نوید سننے کو ملے گی کہ دیگر شعبہ ہائے ملازمت میں ملازمین کے بچوں کو ملازمت میں کوٹہ دیا جاتا ہے۔ داخلہ میڈیکل میں ہو یا انجینئرنگ کالجز میں کہیں نہ کہیں کوٹہ سسٹم موجود ہے ہے لیکن اساتذہ کے بچے اس حق سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ ایسی کوئی خوش خبری نہ ملی ہے اور شاید ........!
کسانوں کیلئے بلاسود قرضے لیکن اساتذہ بینکوں اور مالیاتی اداروں کے 30 فیصد مارک اپ میں یوں جکڑے ہوئے جیسے وہ سرکاری ملازم یا خصوصاً اساتذہ ہو کر جرم عظیم کر بیٹھے ہوں۔ مکان بنانے کیلئے کسی فنڈ سے کوئی مالی مدد نہیں۔ موٹر سائیکل یا گاڑی کیلئے کسی زمانے میں سنا ہے ”کچھ“ ملتا تھا لیکن بعد ازاں یہ مراعات بھی ختم کر دی گئی۔ بنیوویلٹ فنڈ سے اساتذہ کے بچوں کے لئے تعلیمی وظائف کسی سنگین مذاق سے کم نہیں ہیں۔ نمبروں کی شرط تو سمجھ سے بالاتر ہے اور وظیفہ بھی گریڈوں کے حساب سے جو سراسر ناانصافی اور اساتذہ کا دل دکھانے کے مترادف ہے۔ نمبروں کی شرط کو ختم کر کے رقم میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے ہر ٹیچر اپنی پوری سروس میں ایک کثیر رقم اس مد میں کٹوا رہا ہوتا ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ اس رقم کو ریٹائرمنٹ پر واپس دیا جائے۔
جب پڑا وقت نشیمن پہ تو خوں ہم نے دیا
اب بہار آئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں
اسی طرح بیمہ پالیسی بھی تاحیات ہونی چاہیے اور اس کے تمام تر منافع اساتذہ اور انکے اہل خانہ کو دئیے جائیں۔ کفن دفن کے اخراجات بھی حیرت انگیز طور پر ناقابل یقین و تکلیف دہ ہیں۔ ہر گریڈ کا معاملہ الگ گویا یہاں بھی ایک بے حسی موجود ہے۔ بیٹی کی شادی پر ”میرج گرانٹ“ کے نام پر دی جانے والی رقم اگر ایس ایس ٹی کیلئے چالیس ہزار ہے تو ذرا ارباب بست و کشاد اور معیشت دانوں اور حکومتی ایوانوں میں بیٹھنے والے ”عوام کے خدمت گاروں“ سے پوچھا تو جائے کہ آج کے اس دور میں کسی بیٹی کی شادی ”چالیس ہزار“ روپے میں ہو رہی ہے۔ اکثر اساتذہ اپنی کل جمع پونجی یعنی GP Fund نکلوا کر اس فرض سے سبکدوش ہو رہے ہیں اور ریٹائرمنٹ پر سوائے ”ریٹائرمنٹ“ اور کچھ نہیں بچتا اور اگر کچھ بچت بھی ہے تو اللہ خیر رکھے ”AG آفس“ ہے ناں ....!
گزشتہ عالمی یوم اساتذہ پر ایسا کوئی بیان بھی سننے کو نہیں ملا کہ اگر کمتر رزلٹ پر تبادلہ جات اور ترقیاں روکنے کی سزا دی جا رہی ہے تو سو فیصد رزلٹ دکھانے والے اساتذہ کو کیا ایوارڈ دئیے گئے یا نقد انعامات سے نواز کر انکی حوصلہ افزائی کی گئی ہو۔
ہم تری بزم میں امید لئے آئے تھے
تو نے اک بار بھی ہنس کر نہیں دیکھا ہم کو
وفاق اور دیگر صوبوں کے پے سکیل سن کر آہ نکلتی ہے۔ ٹائم سکیل ایک خواب ہے۔ پے سکیلز میں تبدیلی بھی فقط لفظوں کا گورکھ دھندا ہے۔ ہا¶س رینٹ اور میڈیکل الا¶نس ایک مذاق سے زیادہ نہیں ہے۔ دوائی تو دور کی بات ڈاکٹر کی فیس اور ٹیسٹ بھی نہیں کرائے جا سکتے۔ غیر تدریسی ڈیوٹیوں میں مردم شماری‘ ووٹوں کا اندراج اور انکی تصدیق اور بعدازاں جائز و ناجائز ووٹوں کی تصدیق و تحقیق کا سخت ترین فیلڈ ورک‘ پولیو مہم‘ ضلعی و صوبائی و قومی اسمبلی کے الیکشن‘ صدارتی ریفرنڈم‘ بچوں کے داخلوں کے سلسلے میں گھر گھر جاکر فارم پُر کر کے روزانہ رپورٹ کرنا یعنی (UPE - USE) سیلاب اور زلزلہ زدگان کے لئے بھی اساتذہ حاضر۔ گزشتہ محکمہ صحت کے پیپر بھی اساتذہ نے چیک کئے گویا کام ہی کام اور ان کاموں پر جو وقت صرف ہو رہا ہے اور اساتذہ جس دلجمعی سے یہ سرکاری احکامات بجا لا رہے ہیں اس پر کوئی شاباش یا آفرین کے کلمات کی بجائے رزلٹ اور سکول کے معاملات پر سرزنش اور پوچھ گچھ یقیناً اساتذہ کے لئے جسمانی و روحانی تکلیف کا باعث ہے اور یہی ذہنی اضطراب اساتذہ کو پریشان کئے ہوتے ہیں۔
نہیں ایک شب کا قصہ مرے ہم نشیں سمجھ لو
تری جاں میں جاں ہے جب تک یہی سلسلہ رہیگا
یہ معاملات سکول سائیڈ کے ہی نہیں‘ کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ بھی اپنے دل کی حسرت ناتمام کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ عرصہ دراز سے اساتذہ کیلئے انجمن اساتذہ پاکستان کے پلیٹ فارم سے تحریکات کرتا رہا ہوں۔ سید مہدی حسن طارق اور دیگر اکابرین بھی اسمیں شامل رہے لیکن نتیجہ ”ڈھاک کے وہی تین پات“ سلام ٹیچرز ڈے یا عالمی یوم اساتذہ کا حق تو تب ادا ہو کہ وفاق اور خصوصاً خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف یہ اعلان کریں کہ ”احترام اساتذہ آرڈیننس جاری ہو رہا ہے ہر دفتر میں اساتذہ کو تعارف کے بعد کرسی پیش کی جائے گی۔ سفری سہولتوں میں بھی مراعات ملیں گی۔ ٹریفک وارڈنز چالان نہیں کرینگے۔ تھانہ کلچر احترام کرے گا۔ ملازمتوں اور داخلوں میں بچوں کا کوٹہ رکھا جائے گا۔ One Step Promotion کا فوری اعلان ہو گا۔ تنخواہیں دیگر شعبہ جات کی طرح کی جائینگی۔ بینوویلنٹ فنڈ اور گروپ انشورنس کے علاہ ٹائم سکیل بھی جاری کئے جائیں گے۔
اور پھر آنکھ کھل جائے کہ سکول کی تیاری کیجئے اور کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ‘ گرمی اور حبس کے باوجود اپنے فرائض منصبی ادا کیجئے۔ تمام تر مصائب و آلام اور تمام خواہشات اور محکمانہ بے حسی کے باوجود جانفشانی سے کام کرنے والے ”محترم اساتذہ کرام آپکو سلام“ علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ
پھر بھی ”ہم“ سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں