حکومتی ترجمان سے عوامی ڈائیلاگ
حکومت اور عوام کے درمیان ترجمان بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ عوام کے جذبات کی ترجمانی بھی حکومت کے ایوانوں تک اس طرح پہنچے کہ عوامی مسائل جلد سے جلد حل ہونے کی بھی کوئی سبیل نکلتی رہے اور باہمی مشاورت سے دلوں کی الجھنیں کم ہوتی رہیں۔ بصورت دیگر
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
شاید اسی باہمی مشاورت کیلئے پریس انفارمیشن کے ڈائریکٹر جنرل را¶ تحسین علی خان نے تقریب بر ملاقات کا اہتمام کرڈالا اور پی آئی ڈی ملتان کے سعید شیخ نے ان کے اور ملتان کے سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوئے کئی معاملات پر گفت و شنید کا موقع فراہم کر دیا۔ ڈائیلاگ اور مکالمہ آج کے موجودہ سیاسی حکومتی دور کے تقاضوں اور مسائل کے حل ہونے کے لئے بھی ضروری ہے۔ موجودہ ملکی منظر نامے میں محکمہ اطلاعات اور میڈیا کا کردار بھی خاصا اہم نظر آتا ہے۔ ایک طرف دہشت گردی کے خاتمے کیلئے فوج عوام اور حکومت ایک پیج پر کھڑے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف کچھ گتھیاں ابھی تک سلجھا¶ چاہتی ہیں۔ یوں بھی معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ یہ گتھی اہل دانش نے بڑی سوچ کے الجھائی ہوئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ را¶ تحسین علی خان نے اہل دانش کی سوچ بچار کے لئے یہ نکتہ بھی رکھ دیا ہے کہ پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے سیاسی جماعتوں ان کے قائدین اور ان کے کردار کا ہونا کتنا ضروری ہے۔ ان کی اس بات میں وزن ہے کہ حکومت کسی نہ کسی حوالے سے عوام کو ڈلیور کرنے میں مصروف ہے اور اچھے کاموں کی پذیرائی ہونا چاہئے۔۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاستدان عوام کی طاقت سے اقتدار میں آتے ہیں لہٰذا دوسری طاقتوں کو مداخلت کی بجائے اپنے ٹریک پر چلنا ضروری ہے۔ تاکہ ہر ادارہ اپنے دائرے میں رہ کر اپنا مثبت کردار ادا کرتا رہے تو ملکی مسائل کو حل بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ساتھ گفت و شنید میں جنوبی پنجاب کے عوام کی محرومیوں کا بھی تذکرہ ہوا۔ کڈنی سنٹر اور دوسرے منصوبوں کی دوسرے شہروں میں منتقلی اور دوسرے شہروں سے آ کر یہاں کے اداروں پر حکمرانی کرنے والوں کے طرز عمل پر بھی کھل کر بات کی گئی۔ سندھ کی طرح پنجاب میں آپریشن کے آپشن پر ڈائیلاگ کی صورت بنی اگرچہ سبھی اس پر متفق ہیں کہ دوسرے علاقوں کی نسبت پنجاب میں صورتحال خاصی حد تک اطمینان بخش ہے۔ ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کے کچھ علاقوں میں مزید بہتری کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ نوید بھی سنائی ہے کہ اس مو سم سرما میں گیس کی لوڈشیڈنگ کسی حد تک کم ہو گی اور لوگوں کے چولہے جلتے رہیں گے۔
ان کی توجہ واپڈا کے ناقص نظام ‘ نادرہ سے شہریوں کی شکایات کی طرف بھی دلائی گئی۔ اس حوالے سے ان کا مثبت ردعمل دیکھنے میں آیا اگر جنوبی پنجاب کے تمام مسائل جن کی نشاندہی کی گئی ہے ان کی وساطت سے ارباب اختیار اور متعلقہ محکموں کے افسران بالا تک پہنچ جاتے ہیں تو شاید ان کے حل ہونے کا بھی کوئی راستہ نکل آئے۔ اس خطے کے صحافی‘ دانشور اور اہل قلم ایک عرصے سے قومی دھارے سے دور دور ہی رکھے جاتے ہیں ۔ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ اور گورنر کے دوروں میں بھی بڑے شہروں کی اجارہ داری دیکھنے میں آئی ہے۔ اور حکومتی ایوانوں سے آنے والوں کا یہاں کے لوگوں سے رابطہ بھی کم کم ہی ہوتا ہے۔ اب محکمہ اطلاعات اور پریس ڈیپارٹمنٹ کے ارباب اختیار اگر اس خطے پر خصوصی توجہ دینے کا وعدہ کر رہے ہیں تو اسے وفا بھی ہونا چاہئے۔ اور اس کا عملی مظاہرہ بھی نظر آنا چاہئے۔ حکومت اگر سیاسی اور عوامی ردعمل سے بچنا چاہتی ہے تو پھر اسے سب اچھا کی رپورٹ دینے والوں کی بجائے حالات کا اصل چہرہ دکھانے والوں پر بھی تکیہ کرنا ہو گا۔ ملک سے کرپشن کے خاتمے اور انصاف کی فراہمی کے ذریعے عوام کو ڈلیور کرنا ہو گا۔ اس وسیب کے الگ صوبہ بننے میں بھی ابھی کئی مقامات آہ و فغاں درپیش ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اس حوالے سے تمام نکات اس شہر کے دانش وروں تک پہنچا چکے ہیں۔ انتظامی اور قانونی معاملات پر عملدرآمد کے بغیر یہ مسئلہ حل طلب ہی رہے گا۔ سردست اگر یہاں کے عوام کے موجودہ مسائل کو ہی حل کر دیا جائے اور پہلے سے اعلان کردہ منصوبوں کی تکمیل کر دی جائے۔ تو اس خطے کا چہرہ اور بھی نکھر سکتا ہے اور وسیب کی محرومیوں میں کمی بھی ہو سکتی ہے۔ ملتان میں انٹرنیشنل ائرپورٹ بننے کے بعد یہاں کی صنعتی و تجارتی صورتحال کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور حکمران جماعت کو اس خطے میں اپنااثر اور ووٹ بنک بہتر بنانے کے لئے بلا تخصیص فنڈز کی فراہمی اور عوامی فلاح کے منصوبوں کا اجراءوقت کی ضرورت ہے۔ اگر یہاں کی عوامی آواز اور دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی آرا کو حکومتی ترجمان را¶ تحسین علی نقار خانے میں طوطی کی آواز کی بجائے وقت کی نوا بناتے ہیں تو پھر حکومت کی بہت سی الجھنیں بھی خود بخود سلجھنے کے آثار پیدا ہوتے نظر آنے لگیں گے۔
٭٭٭٭٭