4 جون 2014 ءکی صبح بھارتی ریاست منی پور کے ڈسٹرکٹ چند ل میں منی پور کے علیحدگی پسندوں نے بھارتی فوج کے دستے پر اس وقت اچانک حملہ کر دیا جب وہ گشت کے دوران گھنے چنگل کے وسط میں پہنچے۔ اس حملے میں بھارتی فوج کے تین ٹرک اور ایک جیب مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ 20 فوجی مارے گئے اور 15 کے قریب شدید زخمی ہوئے۔ علیحدگی پسندوں نے اسے نریندر مودی کے لئے سلامی قرار دیا جسے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالے ابھی صرف ایک ہفتہ ہی گزرا تھا۔ بھارت نے اس حملے میں نام لئے بغیر پاکستان کو موردالزام ٹھہرایا اور اعلان کیا کہ حملہ آوروں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا۔ انتہا پسند ہندو¶ں کے ہر دلعزیز لیڈر مودی کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے عوام و میڈیا کو مطمئن کرنے کے لئے علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائے۔10 جون 2016 ءکو بھارتی فوج کے ڈی جی ایم او میجر جنرل ر نبیر سنگھ (یہ اب ترقی پا کر لیفٹیننٹ جنرل بن چکے ہیں)نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں بھارتی فوج کے برما کی حدود میں سرجیکل سٹرائیک اور اس کے نتیجے میں علیحدگی پسندوں کے 30 سے پچاس افراد کو ٹھکانے لگانے کا انکشاف کیا۔ میجر جنرل رنبیر سنگھ نے بتایا کہ سرجیکل سٹرائیک میں 21 ویں پیرا ریجمنٹ کے پیراشوٹ کمانڈوز نے حصہ لیا جنہوں نے ایک ہی وقت میں دو مقامات پر آپریشن کیا۔ ایک ناگا لینڈ میں ناگا علیحدگی پسندوں کے ٹھکانے پر تو دوسرا برما میں علیحدہ پسندوں کی خفیہ پناہ گاہ پر جہاں موجود تقریباً تمام مسلح افراد کا صفایا کر دیا گیا۔ میجر جنرل رنبیر سنگھ کے قریب موجود وفاقی جونیئر وزیر اطلاعات راجیا وردھن سنگھ نے بڑھک لگائی کہ بھارت عراق یا یمن نہیں کہ بھارتی فوج کو یوں نشانہ بنایا جائے۔ بھارتی کمانڈوز کا برما میں سرجیکل آپریشن بھارت کے ان ہمسایوں کے لئے بھی پیغام ہے جو دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں۔ ایک صحافی نے پوچھا ہمسایوں سے مراد پاکستان ہے؟ تو وزیر موصوف نے کہا آپ ٹھیک سمجھے ہیں۔
29 ستمبر 2016 ءکو بھارتی فوج کے ڈی جی ایم او لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ نے پریس کانفرنس میں لائن آف کنٹرول کے پار آزاد کشمیر کے پانچ مقامات پر سرجیکل سٹرائیک کا انکشاف کیا تو دنیا دنگ رہ گئی کیونکہ الجزیرہ سمیت مختلف عالمی نشریاتی ادارے لائن آف کنٹرول پر نصف رات کے بعد سے بھارت اور پاکستانی فوج کے مابین فائرنگ کے تبادلے کی خبر دے رہے تھے اور پاکستان میں آئی ایس پی آر بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ اور مارٹر گولوں کی زد میں آ کر پاک فوج کے دو بہادر و جانثار جوانوں کی شہادت کی خبر بھی جاری کر چکا تھا جبکہ بھارتی ڈی جی ایم او نے دعویٰ کیا کہ کامیاب سرجیکل سٹرائیک کے بعد بھارتی فوج نے آزاد کشمیر میں تین کلومیٹر اندر تک جا کر دہشت گردوں کے پانچ ٹھکانوں کو مکمل طور پر تباہ اور وہاں موجود تمام دہشت گردوں کا صفایا کر دیا جو بھارت میں دہشت گردی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ آئندہ کے چند دنوں میں سامنے آنے والے شواہد نے ثابت کر دیا کہ بھارتی فوج کے ڈی جی ایم او نے سرجیکل سٹرائیک کے حوالے سے نہ صرف سراسر جھوٹ بولا ہے بلکہ اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔ یہی نہیں اقوام متحدہ کے مبصرین برائے مقبوضہ کشمیر نے بھی ایسے کسی بھی واقعہ کی تردید کر دی ہے۔ ہاں بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول سے آگے آ کر آزاد کشمیر میں ایک پاکستانی پوسٹ پر شب خون مارنے کی کوشش ضرور کی لیکن پاک فوج کے چوکس ہونے کی بنا پر وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے‘ جو لوگ لائن آف کنٹرول کی جغرافیائی ساخت سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ بھارت نے لائن آف کنٹرول سے 150 گز اندر مقبوضہ کشمیر کی طرف خار دار تاروں کی بلند و بالا دو دیواروں کی مدد سے حصار قائم کر رکھا ہے۔ اسی حصار میں مختلف فاصلوں کے بعد آہنی گیٹ نصب ہیں جو بھارتی فوجی اپنی مرضی سے کھولتے ہیں تاکہ 150 گز کے فاصلے تک لائن آف کنٹرول سے پہلے کی حدود میں ان کے کسان کھیتی باڑی کر سکیں یا وہ خود سفید جھنڈوں کے ساتھ پٹرولنگ کر سکیں۔ ایسے ہی ایک مقام سے بھارتی فوج نے داخل ہو کر جارحانہ انداز سے پاک فوج کی ایک چوکی کی جانب پیش رفت کی۔ بھارتیوں کے ذہن میں تھا کہ پاکستانی فوجی سو رہے ہونگے۔ اسی اثناءمیں بھارتی فوجیوں نے پاکستانی پوسٹ پر فائرنگ کر دی۔ اس دوران مارٹر و آرٹلری کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔یہ حملہ کسی سویلین آبادی ‘ گا¶ں یا ایسے کسی بھی مرکز پر نہیں تھا جسے لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ نے دہشت گردوں کا لانچنگ پیڈ قرار دیا۔ بھارتی فوج کے حملے کا جس طرح جواب دیا گیا اس کے ثبوت بھارتی فوجیوں کے از خود اپنے موبائل ٹیلی فون کے ذریعے عکس بند کئے گئے مناظر کی شکل میں سوشل میڈیا پر موجود ہیں ۔جس میں بھارتی فوجیوں کی جگہ جگہ بکھری ہوئی لاشیں‘ تڑپتے اور کراہتے ہوئے زخمی ‘ پانی و طبی امداد کے لئے پکارتے ہوئے بھارتی فوجی صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ چھ بھارتی فوجیوں کی لاشیں بھارت کی لگائی ہوئی خاردارتاروں اور لائن آف کنٹرول کے درمیان کے حصے میں پڑی رہیں۔ بھارتی چیک پوسٹوں پر پاکستانی فوج کے نشانہ بازوں کی زد میں آ کر مارے گئے بھارتیوں کی تعداد الگ ہے۔ یوں دیکھا جائے تو مارے گئے بھارتی فوجیوں کی تعداد کا تا حال تعین نہیں کیا جا سکا جو یقیناً بہت زیادہ ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن جیسے اہم ترین عہدے پر تعینات لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ کو اتنا بڑا جھوٹ بولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جس کا کسی بھی ملک کی فوج میں تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ فوج کا اتنا بڑا اعلیٰ افسر جھوٹ نہیں بول سکتا یہی سوچ کر بھارت کے اندر اور عالمی سفارتی سطح پر یقین کرنے کی کوشش کی گئی کہ اگر ڈی جی ایم او ایک بات کر رہا ہے کہ ”ہم نے کامیاب سرجیکل آپریشن کیا اور ہمارے فوجی کامیاب آپریشن کے بعد واپس آ گئے“ تو اس میں ضرور سچائی ہو گی مگر اب بھارت کی اپنی اپوزیشن اور میڈیا اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں تو پھر لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ کو مزید شرمندگی سے دوچار ہونے کی بجائے مستعفی ہو جانا چاہئے۔ تاکہ ڈی جی ایم جیسے اہم فوجی عہدے کی ساکھ بحال رہ سکے۔