گزشتہ روز وزیر اعظم نے پارلیمانی جماعتوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے اہم کارنامہ سرانجام دیا، یہ انکی جانب سے فراغدلی کی ایک اہم مثال تھی، یک نکاتی ایجنڈے ”کشمیر“ پر تمام جماعتوں نے وزیر اعظم کے ہاتھ پر بیعت کی اوریک زبان ہو کر لبیک کہا.... مسئلہ کشمیر پر تمام پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لینا اور بذات خود سب کا گرم جوشی سے استقبال کرنا یقیناًان کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافے کا باعث بنے گا.... لیکن موصوف جن کے انتظار میں کھڑے تھے وہ نہ آسکے.... یعنی اصل سیاسی حریف عمران خان تو نہ آئے مگر ان کی جانب سے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے نمائندگی کی.... کیوں کہ رائیونڈ میں گرما گرم تقریر کرنے کے بعد عمران خان دوستوں کے ہمراہ سردیوں کی پہلی پاکستانی ”ٹھنڈ “ کے مزے لینے نتھیا گلی جاچکے تھے .... خیر شاید انہوں نے منت مانگ رکھی ہو کہ جب تک وزیراعظم نوازشریف اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش نہ کریں وہ اُن کا سامنا نہیں کریں گے.... تمام جماعتوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا ، سبھی پرُجوش نظر آئے.... اور سبھی نے ڈھکے چھپے.... دھیمے اور نرم لہجے میں وزیرخارجہ کا منصب خالی ہونے کے گلے شکوے بھی کیے....
آگے چلنے سے پہلے تاریخ کو ذرا ٹٹولا جائے تو 60ءکا یہ عشرہ بھی عجیب و غریب عشرہ تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ یہ ”امیر و عجیب“ عشرہ تھا.... عالمی افق پر جابجا آفتاب و ماہتاب جگمگا رہے تھے۔ ترکی گرسل کی قیادت میں آگے بڑھ رہا تھا، مصر جمال عبدالناصر کے پرچم کے زیر سایہ جلال و جمال کے مرحلے طے کر رہا تھا، فرانس ڈیگال جیسے مرد آہن کی زیر صدارت یورپ میں آہنی حیثیت حاصل کر چکا تھا، ماﺅزے تنگ کی عظیم انقلابی قیادت میں گراں خواب چینی تنزل اور انحطاط کی دلدل سے نکل کر ترقی اور عروج کی تاروں بھری شاہراہ پر گامزن تھے، انڈونیشیا سوئیکارنو ایسے عظیم بطل حریت کی قیادت میں کامیابی و کامرانی کی لیلیٰ سے ہم آغوش ہو رہا تھا، ہر سو جناتی اور کوہ قامت شخصیات کی حکمرانی تھی۔ ایسے میں پاکستان کے ایوان صدارت میں بھی کوہساروں کی آغوش کا پلا مرد کوہستانی فطرت کے مقاصد کی اپنے تئیں نگہبانی کرنے کی کوشش میں جتا ہوا تھا۔ یہ مرد کوہستانی فیلڈ مارشل محمد ایوب خان تھا۔ وہ پاک افواج کا پہلا جرنیل تھا جس کے نام کے ساتھ فیلڈ مارشل کا لاحقہ لگتا ہے، اس کے نام کے ساتھ یہ لاحقہ لگتا ہی نہیں بلکہ سجتا بھی ہے۔
ایوب خان بحیثیت پاکستانی شخصی و قومی عز و افتخار کے پرچم کو بہرصورت سربلند دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ برملا کہا کرتے تھے کہ امریکی ہمارے صرف دوست ہیں۔ امریکیوں کو یہ غلط فہمی نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستانی قوم تاریخ کے کسی موڑ پر بھی انہیں اپنا آقا تسلیم کر لے گی۔ یہ انتہائی جگرداری اور مردانگی کی بات وہے کہ امریکی حلیف ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی سوانح عمری ”فرینڈز ناٹ ماسٹر“ کے عنوان سے لکھی۔ ایوب خان کے بدترین مخالف بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس شخص کے دور میں عالمی برادری میں پہلی اورآخری مرتبہ پاکستان کا نام احترام سے لیا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ 60ءسے قبل یورپ اور امریکہ میں لوگ جب لاہور یا راولپنڈی کے کسی شہری کے نام کوئی خط لکھتے تھے تو ان شہروں کے نام کے بعد انڈیا لکھا کرتے تھے۔ صدر ایوب خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے دور میں عالمی برادری میں پاکستان کا تعارف ہوا۔ دنیا بھر کی بڑی شخصیات ایوب خان کے ذاتی حلقہ رفاقت میں تھیں۔ 65ءکی جنگ ہوئی تو یہ ایوب خان ہی تھے جنہوں نے بھارتی چیلنج کا منہ توڑ جواب دیا۔ انہوں نے پہلے پاکستان یا آخر پاکستان قسم کے جذباتی نعرے بازی نہیں کی بلکہ پاکستان میں بسنے والے اسلام کے بیٹوں سے یہ کہا کہ وہ ”لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑیں اور اس کی توپوں کو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیں“ اس مرد جری نے اس چیلنج اور آزمائش کے موقع پر جہاد اصغر اور جہاد اکبر کی کوئی بحث نہیں چھیڑی۔ ویسے بھی آپس کی بات ہے کہ جہاد اکبر کی باری جہاد اصغر کے بعد ہی آتی ہے۔ 65ءکی جنگ کے دوران پاک افواج کے اس عظیم جرنیل کے مورال کا عالم یہ تھا کہ وہ واہگہ، چونڈہ، پسرور، کھیم کرن، رن کچھ اور دیگر محاذوں پر بارود کی بارش اور گولیوں کی برسات میں پہنچا۔۔۔ اور اس طرح 65ءکی فتح دلا کر نہ صرف پاکستانیوں کے دل جیت لیے بلکہ پاکستان کی دنیا میں عزت کو بھی چار چاند لگا دئیے اور دنیا کا ہر ملک پاکستان کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگا....
بھٹو کے دور میں پاکستان خارجہ پالیسی پر کافی حد تک سویلینز کا اثر و رسوخ تھا۔ دفترِ خارجہ پالیسیوں پر کام کرتا تھا اور نوکر شاہی بھی اس میں اپنا حصہ ڈالتی تھی۔ آرمی سے مشورہ کیا جاتا تھا لیکن مرکزی کردار دفترِ خارجہ کا ہی ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ تھنک ٹینکس بھی کام کرتے تھے، جو سویلینز کے ماتحت ہوتے تھے لیکن اس دور کے علاوہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر زیادہ کنٹرول اسٹیبلشمنٹ کا ہی رہا ہے اور اگر ضیاءالحق کے دور کی بات کی جائے تو ضیاءالحق کو خارجہ پالیسی کا چیمپئین بھی کہا جا سکتا ہے وہ مجرموں کو کوڑے بھی مارتے تھے مگر پاکستان کو دنیا میں بدنام کرنے والے ممالک کی تعداد بہت کم تھی.... جن اقدامات سے اقوام عالم میں پاکستان کے امیج کے خراب ہونے کا خدشہ ہوتا وہ وہیں سے یوٹرن لے لیتے.... کیوں کہ انہوں نے نعروں سے ہٹ کر پاکستان کے امیج کو اُجاگر کرنے کے لیے حقیقی کام کیے، وہ بیرونی سفارتکاروں سے گھل مل جاتے اور پاکستان کے متعلق خود بخود سوال کیا کرتے اور انہی سوالوں کے جوابات سے پاکستان کی بہتری کے لیے اقدامات اُٹھایا کرتے تھے۔
اس کے بعد آنے والی حکومتوں کے ادوار میں خارجہ پالیسی کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے، سیاستدان ذاتی مفادات کو سامنے رکھ کر اقدامات کرتے اور دنیا کی خارجہ پالیسی کا یہ اصول ہے کہ اس دنیا میں کوئی کسی کا دوست نہیں سب مفادات کی گیمز ہیں.... یہ ہمارے سیاستدانوں کے کرتوت ہی ہیں کہ ہمارا سبز پاسپورٹ افغانستان کے بعد دوسرے بدترین درجہ پر فائز ہے۔ہمارے سبز پاسپورٹ کو بیرونی دنیا مشکوک نگاہوں سے دیکھتی ہے اور دنیا کے صر ف 29ممالک سبز پاسپورٹ رکھنے والوں کو اتنی سہولت دیتے ہیں کہ آپ بنا ویزے کے ان ممالک میں پہنچ کر ویزا لگوا سکتے ہیں۔اس بدترین فہرست میں ہمارے بعد صرف افغانستان ہی باقی بچتا ہے اور حتی کہ صومالیہ کا پاسپورٹ بھی ہمارے پاسپورٹ سے زیادہ قابل اعتبار سمجھا جاتا ہے۔ہمارے پاسپورٹ کی اس بدترین کارکردگی کی ایک بڑی وجہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے کہ ہمارے سفارت کار اور متعلقہ حکومتی اہلکار بے پناہ جانوں کی قربانی کے باوجود دنیا کو یہ باور کروانے میں ناکام ہوگئے ہیں کہ ہم پاکستانی قابل اعتماد اور امن پسند لوگ ہیں۔ خارجہ پالیسی کو درست خطوط پر استوار نہ کرنے اور باقائدہ وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ بھی ہمارے امیج کو بہتر بنانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لئے نواز شریف سے گزارش ہے کہ پلیز ! ایک کوشش اور فرما دیں .... اور ایک عدد وزیر خارجہ عنائت کردیں.... عوام الناس کی خاطر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو چاہیے کہ وہ وزارت خارجہ کے لیے خواہ اپوزیشن جماعتوں سے کسی رہنما کو ہی مستعار لے لیں مگر وہ اس منصب کو خالی نہ چھوڑیں اور اب پلیز ایک کوشش کر ہی لیں .... اسی میں سب کی بھلائی ہے!!!
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024