وائٹ ہائوس کے نئے مکین کافیصلہ آج ہوگا!

Nov 05, 2024

عبدالستار چودھری 

ریاستہائے متحدہ امریکہ کے 47ویں صدر کے لئے انتخابات آج ہو رہے اور دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے ہنگامہ خیز انتخابی مہم چلائی اور ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔امریکی صدارتی انتخاب میں سب سے اہم اور پیچیدہ ادارہ الیکٹورل کالج ہے۔ بنیادی طور پر الیکٹورل کالج ایک ایسا ادارہ ہے جو صدر کا انتخاب کرتا ہے اور اس کالج کے ارکان جنھیں الیکٹر بھی کہا جاتا ہے، عوام کے ووٹوں سے جیتتے ہیں۔ یعنی جب امریکی عوام صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے جاتے ہیں تو دراصل وہ ایسے افراد کے لیے ووٹ ڈال رہے ہوتے ہیں جو مل کر الیکٹورل کالج بناتے ہیں اور ان کا کام ملک کے صدر اور نائب صدر کو چننا ہوتا ہے۔ منگل کو ہونے والی ووٹنگ اصل میں ان الیکٹرز کے لیے ہوتی ہے جو حتمی طور پر صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہر ریاست میں ووٹنگ کے وقت اصل میں ووٹر جس بیلٹ پیپر کے ذریعے اپنا ووٹ دیتے ہیں اس پر درج ہوتا ہے 'الیکٹرز برائے (امیدوار کا نام) دونوں امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں سوئنگ ریاستوں میں ایسے ووٹرز کے پاس پہنچنے کی کوشش کی جو اب تک اپنے ووٹ کے فیصلے کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کر سکے ہیں۔ منگل کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں نائب صدر اور ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کا مقابلہ سابق صدر اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق سات سوئنگ ریاستوں میں سے بھی جو امیدوار چار یا اس سے زائد ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لے گا، وہ ملک کا 47واں صدر ہوگا۔ امریکی انتخابی سیاست میں سوئنگ ریاستیں ان ریاستوں کو کہا جاتا ہے جہاں کسی بھی امیدوار کی کامیابی کے بارے میں یقین سے کچھ نہ کہا جا سکے۔ ایسی ریاستوں میں ان ووٹرز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو آخری وقت تک یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ انہیں کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے آخر میں ایسے ہی ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کملا ہیرس نے ریاست مشی گن کا دورہ کیا۔ مشی گن سات سوئنگ ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو گا اور انتخابی نتیجے سے متعلق کچھ کہنا بھی قبل از وقت ہو۔ کملا ہیرسن 20 لاکھ عرب نژاد ووٹروں سمیت مسلمان ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لئے جہاں غزہ جنگ کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی ہیں وہیں ٹرمپ بھی قیام امن کا نعرہ لگا رہے ہیں جو اسرائیل مخالف ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ بھی انتخابی مہم کے آختتام سے قبل تین سوئنگ اسٹیٹس کے مختلف شہروں میں ان دیہی علاقوں میں پہنچے جہاں انہیں توقع ہے کہ کملا ہیرس کے مقابلے میں انہیں زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے ریاست پینسلوینیا کے قصبے لیٹٹز سے کا دورہ کیا جس کے بعد وہ ریاست نارتھ کیرولائنا کے شہر کنسٹن پہنچے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کا آخری اجتماع ریاست جارجیا کے شہر میکن میں کیا۔ گزشتہ منگل کے بعد یہ پہلا دن تھا جب دونوں امیدواروں نے ایک روز کے دوران ایک ہی ریاست میں انتخابی جلسہ نہیں کیا۔ ہیرس نے مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں سیاہ فاموں کے چرچ میں ایک تقریب میں شرکت کی جس کے بعد انہوں نے کارساز کمپنیوں لیورنائس اور پونٹیاک میں کچھ قیام کیا۔ بعد ازاں انہوں نے شام کے وقت مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ واضح رہے کہ پانچ نومبر کو ہونے والی پولنگ سے قبل ساڑھے سات کروڑ سے زائد امریکی ووٹرز بذریعہ میل یا پولنگ اسٹیشن پر جا کر ووٹ کا حق استعمال کر چکے ہیں۔ امریکہ کی بعض ریاستوں میں اتوار کو بھی ارلی ووٹنگ جاری رہی اور پیر کو بھی ووٹرز وقت از وقت ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کریں گے۔ جوں جوں پانچ نومبر کو پولنگ کا وقت قریب آ رہا ہے، دونوں صدارتی امیدوار ایک دوسرے کو آئندہ چار سالہ حکمرانی کے لیے ناموزوں قرار دے رہے ہیں۔ ٹرمپ نے سوشل پلیٹ فارم 'ٹروتھ' پر ایک پیغام میں کہا کہ "ہمیں اس وقت درپیش ہر مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے لیکن قوم کی قسمت کا فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔" ٹرمپ نے کہا کہ منگل کو آپ کو کھڑے ہونا ہو گا اور کاملا کو بتانا ہو گا کہ آپ اپنا کام کر چکی ہیں اور آپ مزید اقتدار میں نہیں رہ سکتیں۔دوسری جانب کاملا اپنے انتخابی جلسوں میں ووٹرز کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ ملک کی صدر بن کر اشیا کی قیمتوں میں کمی لائیں گی۔ امریکہ بھر میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ووٹرز کے لیے ایک بڑے مسئلے طور پر سامنے آیا ہے۔ کاملا اپنے مخالف امیدوار ٹرمپ کو ایک خطرناک اور غیر متوقع شخصیت کے طور پر پیش کر رہی ہیں اور انہوں نے امریکیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ٹرمپ کی افراتفری پر مبنی سیاسی سمجھ بوجھ سے باہر نکلیں۔کاملا نے ہفتے کو نارتھ کیرلائنا کے شہر شارلٹ میں کہا تھا کہ اس انتخابات میں ہمارے پاس ایک موقع ہے کہ ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی تقسیم اور ایک دوسرے کو خوفزدہ کرنے کی کوششوں کو پلٹ کر رکھ دیں۔ واضح رہے کہ امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج کا فیصلہ نیشنل پاپولر ووٹ نہیں بلکہ الیکٹورل کالجز کے ذریعے ہوتا ہے۔ہر ریاست میں الیکٹورل ووٹ کی تعداد آبادی پر منحصر ہے۔ لہذا قومی سطح پر انتخابی نتیجے کا انحصار بڑی ریاستوں پر بھی ہوتا ہے۔ صدارتی الیکشن جیتنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 538 الیکٹورل ووٹ میں سے 270 درکار ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ہیرس یا ٹرمپ 43 ریاستوں میں کافی حد تک یا آسانی کے ساتھ برتری رکھتے ہیں، جہاں سے انہیں 200 یا اس سے زیادہ الیکٹورل ووٹ مل سکتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک ریاست میں اپ سیٹ کو چھوڑ کر انتخابی نتیجے کا انحصار بقیہ سات سوئنگ اسٹیٹس کے نتائج پر ہو گا۔ اپنی انتخابی مہم کے اختتام پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ’لینڈ سلائیڈ‘ فتح کی پیشن گوئی کی ہے جب کہ کملا ہیرس نے مشی گن میں ایک بڑی ریلی کو بتایا کہ ہمارے پاس رفتار ہے اور یہ ہماری طرف ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2024 کے ان انتخابات میں امریکی عوام بھی زیادہ سرگرم دکھائی دے رہے ہیں جہاں 77.6 ملین سے زیادہ لوگوں نے قبل از وقت ووٹ ڈالے ہیں جو 2020 میں ڈالے گئے کل ووٹوں کا نصف ہے۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی نڑاد امریکیوں کا خیال ہے کہ گذشتہ انتخابات کی نسبت یہ الیکشن بہت اہمیت رکھتے ہیں جس کی وجوہات امریکہ میں پناہ گزینوں کے لیے امیگریشن، دوسرے خطوں میں جنگ پر امریکی پالیسی، ٹیکس اور اسقاط حمل جیسے معاملات شامل ہیں۔ پاکستانی برادری کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی مسلمانوں کے لیے غزہ کی جنگ اور امیگریشن کے موضوع پر آنے والی انتظامیہ کا موقف ان کے ووٹ پر بہت اثر انداز ہو گا۔ کچھ پاکستانی نڑاد یہ بھی امید کر رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے سے پاکستان کے سابق وزراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جو ان دنوں اڈیالہ جیل میں بند ہیں، کے رہائی کے امکان روشن ہو سکتے ہیں۔

مزیدخبریں