منگل‘ 7 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 5؍ نومبر2019 ء
پنجاب میں پٹواری کا نام تبدیل کر کے ویلج آفیسر رکھ دیا گیا
پٹواریوں کے کاندھوں پر بہت اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان کا کام کافی سخت ہوتا ہے۔ مگر انگریزیوں کے دور سے اب تک پاکستان میں جتنا مال پٹواریوں نے کمایا اس کا عشر عشیر بھی شاید کسی اور نے کمایا ہو۔ پاکستان بھر میں یہ لفظ ناجائز طریقے سے مال کمانے کی علامت بن چکا ہے ۔ کوئی بھی شہری ان کی دست برد سے محفوظ نہیں۔ پی ٹی آئی والے طنز سے نواز شریف اور شہباز شریف کے حامی مسلم لیگیوں کو پٹواری کہتے ہیں۔ شاید ان کی زیادہ تعداد دیکھ کر اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ نام ہی تبدیل کر دیا جائے لیکن نام بدلنے سے کیا پٹواری کلچر تبدیل ہوجائیگا۔ …؎
میں اس کا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
جس طرح محافظ نام رکھنے سے پولیس کلچر نہیں بدلا۔ اس طرح ویلج آفیسر بننے سے بھی پٹواری نہیں بدلے گا۔ یہ ایک منفی سوچ کا نام ہے جس کے منہ مال لگ چکا ہے۔ یہ کپڑے بھی بدل لیں نام بھی‘ کچھ نہیں ہونے کا۔ جسے شک ہو ذرا کسی گائوں یا شہر میں ہی پٹوار خانے کا رخ کرے۔ تمام حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہوں گے۔ حاضرکو غائب اصل کو نقل بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب اگر ان کی اصلاح کے لیے ان کا نام بدل رہے ہیں تو خدا کرے ان کی یہ خواہش ضرور پوری ہو۔ اگر یہ محکمہ سدھر جائے‘ پٹواری راہ راست پر آ جائیں تو کروڑوں لوگوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
سعودی عرب میں روڈ کلر رن میں عوام کی بھرپور شرکت
آہستہ آہستہ سعودی معاشرے کو جدید دور سے روشناس کرانے کے حکومتی اقدامات کے اثرات آج کل سعودی عرب میں نمایاں نظر آ رہے۔ مقدس مقامات یعنی حجاز سے ہٹ کر ریاض اور جدہ اور دیگر صوبوں میں اب ماحول کو سیاحوں کے لیے پرکشش بنایا جا رہا۔ وہاں کھیل کود سیر و تفریح کی جدید سولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ سنیما گھر بنائے جارہے ہیں۔ خواتین کو بھی آگے بڑھنے اور گھر سے باہر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر جس چیز پر قدامت پرست طبقہ کے ماتھے پر شکنیں گہری ہو رہی ہیں وہ ریاض میں خواتین کے کھیلوں کے مقابلے، میوزک پروگرام اور سنیما گھر ہیں۔ لیکن گزشتہ روز تو ان سے بھی دوچار نہیں کئی ہاتھ آگے بڑھ کر سعودی عرب میں ’’روڈ کلر رن‘‘ نامی مقابلے میں سینکڑوں مرد و زن نے سڑکوں پر رنگ بکھیر کر ایک دوسرے پر رنگ اڑاکر ریس میں حصہ لیا ۔یہ سب کچھ دیکھ کر تو برصغیر پاک و ہند میں کھیلے جانے والے رنگوں کے تہوار ’’ہولی‘‘ کا گماں گزرا۔ یہاں پچکاری سے رنگ پھینکتے ہیں۔ چہروں پر رنگ ملتے ہیں۔ ہنسی مذاق اور ٹھٹھول ہوتا ہے۔ ’’روڈ کلر رن‘‘ میں اس کی اجازت نہیں تھی۔ بس رنگ بکھیرے جا رہے تھے۔ دھنک کی طرح فضا میں ست رنگی چھائی محسوس ہو رہی تھی۔ یہ سب کچھ صرف سعودی عرب والوں کے لیے ہی نہیں ہم سب کے لیے بالکل نیا تھا۔
اسلام آباد مارچ کے شرکا کا پریڈ ، جمناسٹک اور فٹبال سے دل بہلانے لگے
دھرنا دینا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ کھلے آسمان تلے دھوپ چھائوں، سردی گرمی، رات کی ٹھنڈک اور اوس کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ دن رات بور ہونا بیٹھے رہنا بھی دل گردے کا کام ہے۔ پی ٹی آئی والوں سے زیادہ کون دھرنے کے مسائل اور لوازمات سے آگاہ ہو سکتا ہے۔ اب مولانا کے مارچ کے شرکا نے بھی دن رات گزارنے کے لیے اپنا شیڈول تیار کر لیا ہے۔ شروعات صبح نماز کے بعد ہوتی ہے وہ جھاڑیاں اٹھائے سڑکیں اور میدان صاف کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ناشتے کی تیاری کرتے ہیں۔ یوں ناشتے کے بعد صبح زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ کوئی فٹبال کھیلتا ہے تو کوئی لنگڑی اور کوئی کشتی۔ جدید کھیلوں سے متعارف نوجوان جمناسٹک کے رنگ جماتے نظر آتے ہیں۔ رہے برائون یا خاکی وردی پوش تو وہ پریڈ کرتے ہیں۔ یوں لہو گرم رکھنے کے بے شمار طریقے خو دبخود سامنے آ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ سیرسپاٹا کرنے نکل پڑتے ہیں۔ دوپہر کو کھانے کی تیاری ہوتی ہے کھانا پکتا ہے اور تقسیم ہوتا ہے۔ پھر شام ہوتے ہی جلسہ گاہ کی رونقیں بحال ہوتی ہیں۔ ترانے گونجنے لگتے ہیں۔ رات کو تقاریر کا دور چلتا ہے۔ پھر کھانا کھا کر مارچی حضرات استراحت کرتے ہیں۔ بس فرق پہلے دھرنوں سے یہ ہے کہ اب میوزک کی بجائے پانچ وقت نماز ہوتی ہے اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ یہ نظم وضبط پہلے کے دھرنوں میں نہیں تھا۔ کیونکہ اس مارچ کے شرکا رائے ونڈ کے تربیت یافتہ ہیں۔ اس لئے انکے شب و روز قرینے سے گزر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ملک بھر میں آٹے کا بحران شدت اختیار کر گیا
خیبر پی کے اور بلوچستان کے بعد اب ملک بھر میں آٹے کا بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے ۔ معلوم نہیں یہ بحران آہستہ آہستہ ’’سونامی‘‘ کی شکل اختیار کرتا ہے یا ’’کیار‘‘ کی طرح طوفان بننے سے قبل ہی کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں آٹے کی بوری کی قیمت 1200 روپے تک بڑھ گئی ہے۔ جس پر آل پاکستان نانبائی ایسوسی ایشن نے راست اقدام لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے دمادم مست قلندر کا نعرہ لگایا ہے۔ ایسوسی ایشن نے دھمکی دی ہے کہ آٹا مہنگا ہونے کے بعد تنور والے اب حکومت کی دھونس کے باوجود روٹی اور نان موجودہ قیمت پر فروخت نہیں کر سکتے۔ اس لئے اگر حکومت روٹی اور نان کی قیمت نہیں بڑھاتی تو ملک بھر کے نانبائی آزادی مارچ میں شریک ہونے اسلام آباد کا رخ کریں گے۔ روٹی تو ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ ہوا اور پانی کے بعد اگر یہ نہ ہو تو زندہ بندہ چند روز میں مرحومین کی صف میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس لیے حکومت کو اب یا تو آٹا سستا کرنا ہو گا یا احتجاج کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ برداشت کرنا ہو گا۔ پہلا راستہ ہی بہتر ہے آٹے کی قیمت اعتدال پر لائی جائے۔ یہ اچانک کیا ملک کی آبادی بڑھ گئی ہے یا لوگ آٹا یعنی روٹی زیادہ کھانے لگے ہیں۔ ویسے بھی آٹے چاول اور چینی کے کارخانے حکمران طبقے کے ہی ہوتے ہیں۔ تو کیا یہ اپنی حکومت کی سہولت کے لیے منافع کم نہیں کر سکتے۔ غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا کہاں کا انصاف ہے۔
٭٭٭٭٭