مودی سرکار کا ''اکھنڈ بھارت'' کا خواب اب حقیقت سے کوسوں دور، ایک بھیانک خواب بن چکا ہے۔ ایک ایسا خواب جس نے بھارت کو داخلی طور پر کمزور، اخلاقی طور پر دیوالیہ اور عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنا دیا ہے۔اب دنیا جان چکی ہے کہ یہ وہ حکومت ہے جو اپنی عوام سے جھوٹ بولنے میں ماہر ہے، اور اس کا گودی میڈیا اس جھوٹ کو دلیلوں، تجزیوں اور قوم پرستی کے نعروں سے سچ بنا کر پیش کرتا ہے۔ پھر یہی جھوٹ بھارتی فلمی صنعت کے ہدایتکاروں کے ہاتھوں میں جا کر سینما میں ڈھلتا ہے۔اس کی حالیہ مثال ابھی نندن کی ہے، جو پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں مار کھا کر جہاز سے کودا، زمین پر مقامی لوگوں سے تھپڑ کھائے، اور بجائے مزاحمت کے اپنا سروس پستول بھی پھینک دیا۔ لیکن واپسی پر اسے بھارت کا ہیرو بنا دیا گیا، ایوارڈز سے نوازا گیا، اور میڈیا نے اسے جنگی سورما ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
یہی وہ طرزِ حکمرانی ہے جو زمینی سچائیوں سے نظریں چراتی ہے اور جھوٹ پر قومی بیانیہ تعمیر کرتی ہے۔ ''وشو گرو'' بننے کے دعوے دار بھارت کو اب خود اپنی سرزمین پر جاری درجنوں علیحدگی پسند تحریکوں، نسلی و مذہبی تقسیم، اور فوجی بغاوتوں کا سامنا ہے۔خالصتان تحریک، جسے بھارتی حکام ماضی کا قصہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، ایک بار پھر پورے زور و شور سے ابھرچکی ہے۔ کینیڈا، برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک میں مقیم سکھ کمیونٹی نے عالمی سطح پر ایک نئی سفارتی جنگ کا آغاز کیا ہے۔ اسی طرح مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی بھارتی مظالم کا ایک طویل اور خونی سلسلہ جاری ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی، فوجی محاصرہ، انٹرنیٹ کی بندش، سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں اور نوجوانوں کی لاپتا لاشیں بھارتی ریاست کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کرتی ہیں۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنے ظلم کے باوجود کشمیریوں کا جذبہ حریت آج بھی زندہ ہے۔ بھارت نے بزور طاقت ایک ریاست کو غیر قانونی طور پر ضم کرنے کی کوشش تو کی ہے، لیکن ایک قوم کو تسخیر نہیں کر سکا۔ بھارت لاکھ دعوے کرے کہ اس نے کشمیر کو ''انٹیگریٹ'' کر لیا ہے،مگر حقیقت یہ ہے کہ دل اور روح سے کشمیری آج بھی پاکستان کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں۔مزید برآں، بھارت کے شمال مشرقی علاقے ، جنہیں ''سیون سسٹرز'' کہا جاتا ہے ۔ مودی سرکار کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ ناگا لینڈ، میزورم، منی پور، تریپورہ، میگھالیہ، اروناچل پردیش اور آسام کی علیحدگی پسند تحریکیں دن بدن زور پکڑ رہی ہیں۔ مودی کی شدت پسندی نے ان علاقوں میں بغاوت کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ منی پور میں گزشتہ ایک سال سے جاری نسلی فسادات، اور ناگا قوم کی آزادی کی تحریک اب کسی کونے میں دبی آواز نہیں رہی، بلکہ بھارت کی سالمیت کے لیے ایک کھلا چیلنج بن چکی ہے۔آسام اور مغربی بنگال میں بھی مختلف قومیتیں عظیم بنگال کے احیاء کی بات کر رہی ہیں۔ مودی سرکار کے ''اکھنڈ بھارت'' کے خواب کو بھارتی میڈیا، بالی ووڈ، اور نصابی کتب کے ذریعے خوب پروان چڑھایا گیا ہے۔ مگر زمینی حقائق اس خواب کو ہر گزرتے دن کے ساتھ چکنا چور کر رہے ہیں۔ شدت پسندی، مذہبی تعصب، اقلیت دشمنی، معاشی ناہمواری اور متکبرانہ خارجہ پالیسی نے بھارت کو ایک بار پھر 1947 جیسے کسی بڑے سانحے کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ہندو راشٹرا کا خواب، بھارت کے اندر بسنے والی درجنوں قومیتوں، مذاہب، اور زبانوں کی نفی ہے۔ اور جب شناختیں مٹائی جاتی ہیں، تو ردعمل میں انقلاب پیدا ہوتے ہیں۔اندرونی خلفشار کے علاوہ، بھارت کی پاکستان مخالف پالیسیوں نے خطے میں جنگ کے بادل مزید گہرے کر دیے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر آئے روز فائرنگ، بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے سہولت کاری، سی پیک میں رکاوٹیں ڈالنا، اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا، سب کچھ بھارت کی جارحانہ ذہنیت کا عکاس ہے۔لیکن پاکستان نے اس تمام صورت حال کا مقابلہ نہایت ہوش مندی سے کیا ہے۔ حالیہ سالوں میں پاک فوج نے نہ صرف دہشت گردی کا قلع قمع کیا بلکہ بھارت کی کسی بھی ممکنہ جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ پاکستان کے جے ایف-17 تھنڈر طیاروں، میزائل ٹیکنالوجی، اور ایٹمی صلاحیت نے بھارت کی ''کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرین'' کو دفن کر دیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سفارتی محاذ پر بھی بھارت کو خوب آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ کشمیر، خالصتان اور شمال مشرقی بھارت کی تحریکوں کا عالمی سطح پر اجاگر ہونا، پاکستان کی مؤثر حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ او آئی سی ہو یا اقوامِ متحدہ کا فورم، پاکستان ہر جگہ بھارت کے چہرے سے نقاب اتار رہا ہے۔مودی کی شدت پسندی اب پڑوسی ملک پاکستان،سری لنکا،نیپال اور بنگلہ دیش کے لیے نہیں، بلکہ خود بھارت کے لیے ایک خطرناک ناسور بن چکی ہے۔نریندر مودی نے جو نفرت کا بیج بویا تھا، اب وہ تناوردرخت بن کر خود بھارت کو نگل رہا ہے۔اگر حالات یونہی رہے تو شاید اگلا بٹوارہ مودی کی شدت پسندی کا تحفہ ہو اور ہندوستاں کے بعد اس بار، بھارت کے کئی ٹکڑے ہوجائیں گے۔
پاکستان کو اس وقت ہوشمندی، استقامت اور دفاعی تیاری کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی سرگرم رہنے کی ضرورت ہے۔ خالصتان، کشمیر، ناگا لینڈ، منی پور، اور آسام کی تحریکیں ایک موقع فراہم کر رہی ہیں کہ بھارت کے اندرونی حالات کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا جائے۔ یہ صرف اخلاقی یا سفارتی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ ایک اسٹریٹیجک موقع ہے جو پاکستان کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔قوموں کی تاریخ میں ایسے لمحے کم آتے ہیں جب دشمن کی کمزوری واضح ہو، اور آپ کی قوت و عزم برقرار ہو۔
آج بھارت اندر سے ٹوٹ رہا ہے، اور پاکستان ایک مستحکم دفاعی، سیاسی و سفارتی پوزیشن میں ہے۔ ہمیں صرف اتحاد، بصیرت، اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
اکھنڈ بھارت کے خواب سے تقسیمِ ہند کے دوسرے باب تک
May 05, 2025