نیشنل گرینڈ ڈائیلاگ
انسانی زندگی کے حوالے سے ماضی، حال اور مستقبل یہی تین کیفیات ہوتی ہیں جن میں انسان کسی نہ کسی طور رہ رہا ہوتا ہے، لیکن یہ اس کی اپنی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس زمانے کس کیفیت میں رہنا پسند کرتا ہے۔ فلسفیوں کے نزدیک انسان کی یہی ترجیح دراصل اس کی اصل زندگی میں اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تعین کرتی ہے۔ دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ اہلِ دانش جب اس حقیقت کی بنیاد پر انسانوں کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کرتے ہیں تو ہمارے معاشرے میں جس کلاس سے سب سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے، اْن میں اکثریت اْن لوگوں کی ہوتی ہے جن کو نہ تو مستقبل کی کوئی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کسی طور اپنے ماضی کو یاد کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنکو سماج ’’چال مست حال مست‘‘ کے نام سے جانتا ہے اور اہل فکر کے نزدیک یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ آزادی کے بہتر سال گزرنے کے باوجودآج بھی ہمارا شمار تھرڈ ورلڈ کے اْن ممالک میں ہوتا ہے جن کا معیارِ زندگی ہر روز نیچے سے نیچے گرتا جا رہا ہے۔ مشاہدے کی بنیاد پر دوسری درجہ بندی میں جو لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہمیشہ ماضی کو یاد کرکے جیتے ہیں جس کے اوپر سونے پہ سہاگہ کہ وہ ماضی میں جیتے تو ہیں مگر ماضی کے کسی بھی سبق کو سامنے رکھ کر اپنے مستقبل کے متعلق کوئی منصوبہ نہیں کرتے اور عمومی طور پر ان کی زندگی بھی پہلی کیٹیگری کی طرح کسی بھی قسم کی کامیابی سے عاری ہوتی ہے۔ اب آتے ہیں تیسری کیٹیگری کی طرف، جن میں وہ لوگ آتے ہیں جو اپنے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ حقیقتیں اخذ کرتے ہیں اور پھر اپنے حال میں رہتے ہوئے بہتر مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ایسے لوگ عملیت پسند کہلاتے ہیں اور عملی زندگی میں کامیابیاں بھی ان کا مقدر بنتی ہیں، لیکن جب مستقبل کے بارے میں بات ہو رہی ہے تو اس حوالے سے اس کیٹیگری میں ایک ایسی کلاس بھی پائی جاتی ہے جن کا ماضی کے حوالے سے نہ تو کوئی تحقیق یا پیپر ورک ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی بنیاد پر مستقبل کے حوالے سے ان کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ بندی ہوتی ہے، لیکن جب وہ بات کرتے ہیں تو وہ یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ دیکھتے جائیں ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں گے۔ اس پر راقم سے یہ سوال کر بیٹھیں کہ اس قسم کے لوگوں کی کوئی مثال تو اس سلسلے میں خاکسار کی صرف یہی عرض ہو گی کہ میں تو عقل کا اندھا ہوں۔ آپ آنکھوں والے ہیں اردگرد کے حالات کا جائزہ لیں آپ مایوس نہیں ہونگے، لیکن اہل نظر کے نزدیک یہ کوئی فخر کا مقام نہیں بلکہ یہ وہ لمحۂ فکریہ ہے جہاں اب بھی اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو پھر ماتم کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے اس بند گلی سے نکلنے کا کوئی راستہ۔ بلاشبہ جب تک انفرادی سطح سے لیکر اجتماعی سطح تک عام آدمی سے لیکر ملکی قیادت تک ہم اس خیالی دنیا سے نہیں نکلتے اور عملیت پسندی کی طرف نہیں آتے توکسی بھی قسم کے معجزے کی توقع عبث ہی ہو گی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر سطح پر فرقہ بندیوں میں پڑ چکے ہیں۔ چاہے وہ مذہبی بنیاد ہو یا سیاسی بنیاد، ڈائیلاگ نام کی کوئی چیز کوئی تصور رہ ہی نہیں گیا۔ ہر شعبہ زندگی میں ہم انتہاؤں کو چھو رہے ہیں جس کا نتیجہ آج یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہمارے ان رویوں کو بنیاد بنا کر دنیا ہمیں عبرت کا سبق سکھانے پر نکل پڑی ہے۔ اہل فکر کے نزدیک اگر اس ایشو کی طرف فی الفور توجہ نہ دی گئی تو وہ دن دور نہیں جب ہماری بقائ، ہمارا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ ماضی کے تمام تجربات اس بات کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ قائداعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو یہ کریڈٹ جاتا ہے جس کو اپ وژنری لیڈر کے طور پر جان سکتے ہیں۔ اس شخص سے لاکھ سیاسی اور ذاتی اختلاف ہو سکتے ہیں، لیکن جس طرح عالمی سطح پر مستقبل کے خطرات کو دیکھتے اس نے پوری مسلم اْمّہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا، پھر ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور دنیا کو تھرڈ ورلڈ سے متعارف کروایا۔ یہ سب اس کا کمال تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قومی سطح پر اب کسی ایسے وجود کا کوئی نشان ہے اور اگر نہیں ہے تو پھر کونسا راستہ رہ جاتا ہے۔ یہ اس خاکسار کا نہیں بڑے بڑے اہل نظر، فکر اور دانش کا خیال ہے کہ اس وقت واحد راستہ نیشنل گرینڈ ڈائیلاگ۔