ماہ رمضان کو اسلامی کیلنڈر میں فضیلت حاصل ہے۔ یہ فیوض و برکات‘ تزکیہ نفس اورتصفیہ باطن کا مہینہ ہے۔ اس کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید کا نزول اسی بابرکت مہینے میں ہوا۔ قرآن کئی اعتبار سے منفرد الہامی کتاب ہے۔ ایک زندہ معجزہ! ہر پیغمبر کوئی نہ کوئی اعجاز لایا۔ حضرت ابراہیمؑ نے نار نمرود گلزار میں بدل دی۔ حضرت موسیٰؑ کو ید بیضا نصیب ہوا۔ حضرت سلیمانؑ نے چرند و پرند پر حکمرانی کی۔ ان کی زبان کو سمجھا۔ حضرت عیسیٰؑ قم باذن اللہ کہہ کر مُردوں کو زندہ کردیتے تھے۔ رسالت مآبؐ نے بھی شق القمر کیا معراج نصیب ہوا‘ لیکن ان کا اصل معجزہ وہ الہامی کتاب ہے جس کے متعلق عکاظ کے میلے میں عرب شعراء نے کہا تھا یہ کلام بشر نہیں ہے اب حیران کن بات یہ ہے کہ اس کی زبان POETICAL نہیں بلکہ RHETORICAL AND RYTHMECAL ہے جو دل کے نہاں خانوں میں اترتی چلی جاتی ہے۔ قلوب کو منور کرتی اور اذہان کو جلا بخشتی ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ اس اعتبار سے بھی یہ منفرد ہے۔ اسے لاکھوں لوگوں نے حفظ کررکھا ہے۔ اس کے WORDS اور LETTERS تک گنے جاچکے ہیں جو علی الترتیب (77934) اور (323621) ہیں۔ اس قدر عرق ریزی دنیا کی کسی کتاب میں نہیں کی گئی ہے۔ اس کی آیات اور صورتوں میں ایک ترتیب ہے جو موقع کی مناسبت سے اتری ہیں۔ ایک یہودی مورخ کے مطابق MECCAN SURAS ARE SHORT, CRISP, IMPRESSIVE AND EXPRESSIVE , WHILE MEDINITE SURAS ARE VERBOSE AND LONG. وہی آگے چل کر رسالت مآب کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔
WITH IN THE BRIEF SPAN OF HIS MOTRAL LIFE, MUHAMMAD (PBUH) CALLED FOR ITS OUT OF UNPROMISING MATERIAL, NATION NEVER LENITED BEFORE, INTO A COUNTRY WHICH WAS HITHERTO BUT A GEOGRAPHICAL EXPRESSION AND LAID ITS FOUNDATIONS OF VAST EMPIRE WHICH WAS SOON TO EMBRACE WITHIN ITS FARFLUNG BOUNDRIES , THE FAREST PROVINCES OF THE WORLD, HIMSELF AN UNSCHOOLED PERSON, HE WAS NEVERTHELESS RESPONSIBLE FOR A BOOK WHICH IS STILL CONSIDERED BY A GOODLY PORTION OF MANKIND AS EMBODIMENT OF ALL SCIENCE, WISDOM AND THEOLOGY.
انہوں نے اس دنیاوی حیات کے اندر ایک بکھری ہوئی قوم کو وحدت کی لڑی میں پرو دیا۔ ایک ریاست کی بنیاد رکھی، دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک ایسی سلطنت بن گئی جس میں دنیا کے تمام مہذب اور ترقی یافتہ علاقے شامل تھے۔ گو وہ کسی سکول میں نہ پڑھے تھے، اُمی تھے مگر دنیا کو ایک ایسی کتاب دی جسے اب بھی ایک کثیر تعداد عقل و فہم، سائنس اور اخلاقیات کا مخزن اور منبع سمجھتی ہے)
اسلام محض ایک مذہب نہیں بلکہ دین ہے جو انسان کی پیدائش سے لے کر دم آخریں تک کی زندگی کو ’’ریگولیٹ‘‘ کرتا ہے۔ دیگر مذاہب میں عبادت بھی ہے مگر اسلام میں عبادت ہی ہے ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کی رضا یا اس کے بندوں کی فلاح کیلئے کیا جائے عین عبادت ہے۔ روزہ بھی نماز و حج کی طرح فرائض میں شامل ہے‘ لیکن وہ شخص جو ایک غریب و نادار روزہ دار کو کھانا کھلاتا ہے اس کی سحری اور افطاری کا اہتمام کرتا ہے‘ وہ بھی اتنے ہی ثواب کا حق دار ہے جتنا کہ روزہ دار کو ملتا ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب اتنا DEMANDING نہیں ہے جتنا کہ دین مبین ہے۔ جس طرح ایک فوجی کو زندگی ضابطوں اور ڈسپلن کے تحت گزارنی پڑتی ہے‘ اسی طرح ہر مسلمان بھی اسلام کا سپاہی ہے۔ اسے زندہ رہنے کا سلیقہ بتایا گیا ہے مرنے کے آداب سمجھائے گئے ہیں‘ لیکن کوئی کام بھی ایسا نہیں بتایا گیا جو اس کی پہنچ اور استعداد سے باہر ہو۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ اعتدال اور میانہ روی کا مظہر ہے۔
روزہ بھی صرف اس شخص پر فرض ہے جو بالغ ہو، تندرست ہو، کسی قسم کے عارضے میں مبتلا نہ ہو۔ سفر کی حالت میں نہ ہو اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے تمام حدود وقیود پر نگاہ رکھتا ہے۔ جو لوگ اعتکاف کے لئے اس مقدس مہینے میں سعودی عرب جاتے ہیں انہیں وہاں مسجد الحرام ، مسجد نبوی اور دیگر مساجد میں روح پرور نظارے دیکھنے کیلئے ملتے ہیں۔ روزہ دار کم اور روزہ کھلوانے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ دستر خوان انواع و اقسام کے مشروبات اور ماکولات سے سجے ہوتے ہیں۔ لوگ منتیں کرکے، ہاتھ جوڑ کر روزہ داروں کو دعوت طعام دیتے ہیں۔ عبادت در عبادت۔
ملک میں اکثریت روزے رکھتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے نماز نہیں پڑھتے وہ بھی روزہ ضرور رکھتے ہیں۔ روزہ رکھنے کا یہ فائدہ بھی ہے کہ اس حالت میں نماز کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے ، جھوٹ بولنا ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے‘ لیکن اس حالت میں حتیٰ الوسع اس سے بچا جاتا ہے جو لوگ ہلکے پھلکے نشے ازقسم سگریٹ نوشی، نسوار وغیرہ کے عادی ہوتے ہیں ان کے لئے بھی ترک منشیات کا نادر موقع ہوتا ہے۔ البتہ روزہ خور عذر گناہ بدتر ازگناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عجب تاویلیں پیش کرتے ہیں، عذر لنگ اس سلسلے میں مرزا غالب کو خوب لتاڑتے ہیں۔ ان کے اشعار کو بطور مثال استعمال کرتے ہیں۔ روزہ میرا ایمان ہے غالب‘ لیکن خسخانہ و برفاب کہاں سے لائوں! علامہ اقبال کو بھی نہیں بخشتے …؎
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گانماز میں۔کچھ ایسے بھی ہیں جو روزہ تو رکھتے ہیں مگر اسے مکروہ کردیتے ہیں وقت گزاری کیلئے سارا دن تاش کھیلتے رہتے ہیں یا اس قسم کے فضول مشاغل میں مصروف رہتے ہیں۔ غالب کے متعلق بہت سے قصے اور لطائف مشہور ہیں۔ بہادر شاہ ظفر نے پوچھا۔ مرزا اب کے برس کتنے روزے رکھے ہیں تو مرزا نے دست بستہ عرض کی …’’پیر و مرشد، ایک نہیں رکھا۔ بھی کا لفظ حذف کرکے اس رندخرابات نے جواب کو مبہم بنا دیا۔ اسی طرح دن کے وقت روزہ خوری کی حالت میں ایک مولوی صاحب نے انہیں پکڑ لیا۔ مذمت کرتے ہوئے بولے ۔ مرزا شرم کرو! اس مہینے تو شیطان کو بھی بند کردیا جاتا ہے‘‘…… شیطان کمرے میں ہو یا باہر دراصل اس شیطان کو جکڑنا چاہئے جو ہر شخص کے اندر موجود ہوتا ہے۔ نفس امارہ نہنگ، اژدھا و شیرنرمارا تو کیا مارا! بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا!
اس مرتبہ کا رمضان قوم کا کڑا امتحان ہے۔ اسے موسم گرما کی حدت کے علاوہ کرونا وائرس کی شدت کا بھی سامنا ہے۔ اس کے ملکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے، بے شمار لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ مخیر حضرات کیلئے ان کی مالی مدد اور معاونت اس شرعی فرض کے برابر ہے۔ اس قسم کے امتحانات روز روز نہیں آتے، یہ اس صدی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر متمول اور صاحب حیثیت آدمی اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ ہر محلے اور کمیونٹی میں کمیٹیاں بنائی جائیں جو نادار لوگوں کی سحری اور افطاری کا بندوست کریں۔ جو لوگ عزت نفس یا کسی اور وجہ سے شریک نہیں ہوسکتے انہیں خشک راشن دیا جائے ، زکوٰۃ اور فطرانے کی رقم کو دگنا کردیا جائے۔ کتاب حکمت میں واضح طور پر لکھا گیا ہے خدا اس قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم عملی قدم نہیں اٹھاتی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ امید ہے کہ عید نوید مسرت لائے گی کسی المیے کا عنوان نہیں بنے گی!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38