
شاعر مشرق، حکیم الامت ، حضرت علامہ اقبال کے یوم وفات پر ایک صاحب کی تعصب، بغض اور نفرت سے لبریز تین سطری ٹویٹ دیکھنے کو ملی جس میں املاء کی چار غلطیاں تھیں۔ اپنی ٹویٹ میں موصوف نے اقبال پر سرقہ نویسی کا الزام لگایا تھا۔ ان کے خیال میں اقبال کی شہرت دوام کا سہرا مطالعہ پاکستان کے سر سجنا چاہیے۔ وہ کوئی بڑے تخلیق کار نہیں تھے بلکہ اہل یورپ اور خوشحال خان خٹک وغیرہ کے کلام سے اکتساب فیض کر کے شہرت کی بلندیوں کو پہنچیــ۔دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ گزشتہ کچھ عرصے سے یہ رسم چل نکلی ہے کہ جب بھی یوم اقبال آتا ہے تو کچھ فکری اپاہج، جن کا ظاہر سرخ اور باطن تاریک ہے، قومی خدمت سمجھ کر حضرت علامہ اقبال پر تبرابازی کرتے ہیں۔بارہا ایسے ناقدین اقبال سے گفت و شنید کا موقع ملا ہے۔ یہ لوگ چند منٹ جم کر اقبال پر گفتگو نہیں کر سکتے۔ اقبال کی روح اور ان کا اوج فارسی کلام میں ہے اور اقبالیات کی تفہیم کے لئے فارسی زبان و ادب سے گہری آشنائی ضروری ہے لیکن یہ ذہنی نا بالغ اقبال کے اردو کے کلام سے مناسب شناسائی نہیں رکھتے ۔ اقبال کی شہرہ آفاق اردو نظمیں جن کا ایک ایک مصرع آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہے ، ان کی فکری گہرائی اور گیرائی سے یہ لوگ کلیتاً نا آشنا ہوتے ہیں ۔ جس عظیم المرتبت شاعر نے مسجد قرطبہ جیسا ادبی شہ کار تخلیق کیا ہو اس کی شاعرانہ عظمت سے انکار خورشید جہاں تاب کی پھوٹتی کرنوں اور ماہتاب کی ضیا افروزیوں کا انکار ہے ۔ اقبال کی شاعرانہ عظمت اورجولانی ٔ فکر کی توضیحات پیش کرنا ایسے ہی ہے جیسے تپتی دوپہر میں سورج کی موجودگی پر دلائل و براہین لانے کی سعی لا حاصل کی جائے ۔ سچ تو یہ ہے کہ علم و ادب کے بروج مشیدہ اقبال کی دہلیز پہ نا صیہ فرسا نظر آتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کے چند فکری یتامیٰ ان پر سرقہ نویسی کا الزام لگاتے ہیں۔
جہاں تک تصور خودی مغربی دانشوروں سے مستعار لینے کا سوال ہے تو شارحین اقبال نے نہایت شرح و بسط سے بتا دیا ہے کہ خودی کا تصور خالص قرآنی نظریہ ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ میرا مقدمہ ایسی غیر سنجیدہ روش سے ہے کہ جب بھی کسی فکری نا بالغ کا دل کرے وہ اٹھ کر اپنی توپوں کا رخ اقبال کی جانب کر لے ۔ ان نام نہاد ناقدان اقبال کو مسئلہ اقبال سے نہیں بلکہ ان کے تصورات سے ہے جن کا اظہار علامہ نے اپنی شاعری میں پوری جرأت و ایقان سے کیا ہے۔ اقبال کا جرم یہ ہے کہ وہ مادیت پرستوں کے سامنے بلا جھجک اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات کرتے ہیں۔ وہ توحید کو مسلمان معاشرے کے تمام دکھوں کا مدوا قرار دیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر ایرے غیرے کے در پر جبین نیاز جھکانے والی یہ قوم ہزار سجدوں سے نجات حاصل کر کے ایک قادر مطلق کے در سے لو لگائے۔ توحید کو خودی کا سر نہاں اور اس کائنات کی حقیقت عیاں قرار دیتے ہیں۔ وہ آزرو نمرود کے بجائے ابراہیم ؑ کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں ۔ وہ فرعونوں کے در پر جھکنے کے بجائے موسیٰ و ہارون کے مشن کو مقصد زیست سمجھتے ہیں۔وہ سر جھکا کر نہیں ، سر اٹھا کر جینے کی تلقین کرتے ہیں ۔ اگر انسان اپنے ہی جیسے کسی انسان کے سامنے جھکنے لگے تو وہ اسے انسانیت کی بد ترین شکل سے تعبیر کرتے ہیں ؛
آدم از بے بصری بندگی آدم کرد
گوہری داشت ولے نذر قباد و جم کرد
یعنی از خوئے غلامی زسگاںخوار تراست
من ندیدم کہ سگے، پیش سگے سر خم کرد
اردو کی روایتی غزل محبوب کے عارض و رخسار کے گرد گھومتی ہے اور بادہ و جام کی مستی میں لذت وسرور کے بت تراشتی ہے۔ اقبال نے ان روایتی بتوں کو پاش پاش کر کے ادب کو بلند تر مقصدیت سے اس طرح آشنا کیا کہ اس کے فنی محاسن سے سر مو انحراف نہ ہوا بلکہ اس کو چار چاند لگ گئے۔ چنانچہ کلام اقبال میں سینکڑوں ایسے اشعار ملتے ہیں جن کا شمار بلا تکلف دنیا کے بہترین شعری ادب میں ہو تا ہے۔
اقبال کے نزدیک حیات ذوق سفر کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ وہ زاہد با صفا ہونے کے ساتھ ساتھ رند سبوکش اور بلا کے بادہ خوار بھی ہیں۔وہ جذب و مستی اور پینے پلانے کی بات ضرور کرتے ہیں لیکن ایک مختلف پیرائے میں۔وہ ایسی مے کا تذکرہ کرتے ہیں جس سے ضمیر حیات کو روشنی عطا ہوتی ہے۔ سوز و ساز ازل کے عقدہ ہائے لا ینحل وا ہوتے ہیں اور کائنات کو جذب و مستی سے ہم آہنگی نصیب ہوتی ہے۔وہ نہ تو خواجہ حافظ کی طرح وحدت الوجودی ہیں کہ ان کا کلام پڑھ کر کوئی ترک دنیا کی طرف مائل ہو اور نہ ہی ایسے فلسفے کے مبلغ ہیں جس کا صدف گہر سے خالی اور جس کا طلسم خیالی ہو۔ ان کے ہاں صوفی صرف وہی ہے جو محبت میں یکتا اور حمیت میں فرد ہو۔ وہ ایسے خطیب کے خطبوں سے نالاں ہیں جس کا کلام دلوں کو لبھائے لیکن لذت شوق نصیب نہ کرے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اقبال کو بحیثیت مجموعی سمجھنے کی بجائے اس کو منتشر اجزاء میں بکھیر کر اس کی من مانی تشریحات تراشی جاتی ہیں۔ کسی کو اقبال محض جہادی نظر آتا ہے تو کوئی اسے اپنے من میں ڈوبا ہوا سراغ زندگی کی کھوج میں سرگرداں صوفی سمجھتا ہے۔ کسی کے ہاں وہ قدامت پسندوں کا سرخیل ہے تو کو ئی اسے نیچری گردانتا ہے۔کبھی کبھی اقبال ایک ایسے پلاٹ کے طور پر نظر آتا ہے جیسے ہر کوئی اس پر قبضہ کرنے کا خواہاںہو ۔ اقبال کو بحیثیت مجموعی سمجھنے کے لئے ظاہر ہے اس کی نظم کے ساتھ ساتھ اس کی نثر سے آشنائی بھی ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا مذہبی طبقہ جو پورے جوش و خروش سے اقبال پر قابض ہونا چاہتا ہے کیا آسانی سے اقبال کے نثری افکار ہضم کر سکتا ہے؟پاکستان کے نظام تعلیم کا المیہ یہ ہے کہ سولہ سال با قاعدہ درس گاہوں کی خاک چھاننے کے بعد یہاں کے سند یافتگان معیاری اسلوب کے حامل چند جملے نہیں لکھ سکتے بھلا اس پود سے یہ توقع کیوں کر کی جائے کہ یہ کلام اقبال یا پیغام اقبال کا ادراک حاصل کر سکے۔ لہذا غور طلب بات یہ ہے کہ ہماری قوم کو کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ جہالت جیسے مہلک وائرس کا بھی سامنا ہے جس کا اظہار مختلف مواقع پر دیکھنے میں آتا رہتا ہے۔