کون جانتا ہے کہ کل کیا ہونیوالا ہے۔ فروری 2020ء میں آنیوالی نئی افتاد کورونا نے پوری دنیا کو یُوں جکڑا ہے کہ ہر شخص حیران ہے ، ہر فرد پریشان ہے۔ ہر انسان آنیوالے وقت سے انجان ہے۔ کورونا کے بعد دنیا ایک نئے انداز، نئے ڈھب اور نئے روپ کی دنیا ہو گی۔ کون جانتا ہے کہ ہم زندگی کے نئے سانچوں میں ڈھل جائینگے۔ پھر دولت کے انبار سمیٹنے کا جنون کیسا؟؟ اب اگر کورونا وائرس کے خوف سے دل ہلے ہیں تو دماغوں میں بھری فرعونیت کو بھی پاش پاش ہونا چاہئے۔ دل بدلے ہیں تو دماغ بھی بدلنے چاہئیں۔ خاندانوں اور بیٹوں پر تکبر کرنے والوں اور دولت پر گھمنڈ کرنے والوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اس دنیا میں زندگی ہی عارضی نہیں ، زندگی کی ہر شے ناپائیدار ہے۔ جب کائنات کے خالق نے فنا و بقا کا اصول بنا دیا تو اسے کون مٹا سکتا ہے۔ یہ وقت جو ہم نے خود کو گھروں میں قید رکھ کر کاٹا ہے۔ اس وقت نے ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے کہ درد ہوتا ہے تو ہر گوشت پوست کے انسان کو ہوتا ہے۔ اگر ایک گھر میں کوئی مرتا ہے تو دوسرے گھر میں بھی ملک الموت کا بسیرا ہوتا ہے۔ بھوک ہر شخص کو لگتی ہے ، سردی ہر تن کوستاتی ہے ، بیماری ہر ذی روح پر حملہ آور ہوتی ہے۔ جب زندگی کی یہ معنویت سمجھ آ جائے تو آدمی کسی یتیم، بے سہارا ، غریب ، مجبور ، مستحق کی تکلیف کو سمجھنے لگتا ہے۔ زکوٰۃ کو اسی لئے اسلام کا لازمی جزو بنایا گیا کہ دولت گردش میںرہے ۔ ہر شخص کی ضروریاتِ زندگی پوری ہوں۔ اس میں شک نہیںکہ پاکستانی خیرات صدقات اور زکوٰۃ کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ عید اور بقر عید پر خیرات صدقات اور زکوٰۃ کے دلگداز مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دل خوفِ خدا سے معمور ہوتے ہیں لیکن لازم ہے کہ آپکی زکوٰۃ مستحقین تک پہنچے۔ رمضان میں بہت سے ادارے زکوٰۃ کیلئے درخواستیں کرتے ہیں۔ تشہیری مُہم چلاتے ہیں اور زکوٰۃ کی رقم پانے کیلئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کرتے ہیں۔ زکوٰۃ دینے سے پہلے تسلی کرلیں کہ اللہ کی راہ میں دئیے گئے پیسے اللہ کے ہی بندوں تک پہنچ رہے ہیں۔ آپ کی زکوٰۃ کے اصل حقدار حقیقی مستحقین ہیں۔ ان میں یتیم، بے آسراء ، لاوارث ، بیوائیں ، غریب ، لاچار، بیمار افراد کا پہلا حق ہے۔ اس ضمن میں خود میں نے اپنی آنکھوں سے جس ادارے کو زکوٰۃ کی رقم کا استعمال خدا خوفی سے کرتے دیکھا ہے۔ وہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ ہے۔ میں گزشتہ دس سالوں سے اس ادارے کو ذاتی طور پر جانتی ہوں۔ کئی مرتبہ ان اداروں اور بچوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ کئی سرپرائز وزٹ کئے ہیں اور حیران ہوئی ہوں کہ یہ لوگ کس قدر خداترس ہیں اور اس ٹرسٹ کو اللہ کے نام پر کتنے منظم انداز میں چلا رہے ہیں۔ ہزاروں ، لاکھوں بچوں کی کفالت معمولی خدمت نہیں ہے۔ جو 1995ء سے پاکستان کے چاروں صوبوںکے دُور دراز اور پسماندہ دیہاتوں کے وسائل سے محروم کمزور طبقے اور کم وسیلہ خاندانوںکے بچوں کو تعلیم کا بنیادی حق مہیا کر رہا ہے۔ اس وقت پنجاب ، خیبر پختونخواہ ، بلوچستان اور سندھ کے پسماندہ دیہاتوں میں قائم ٹرسٹ کے 700 سکولوں میں ایک لاکھ سے زائد بچوں اور بچیوں کو تعلیم دے رہا ہے۔ انہیں کھانا ، کتابیں ، یونیفارم، مفت تعلیم دے رہا ہے۔ کفایت تیامیٰ و مستحقین پروگرام کے تحت 48 ہزار یتیم اور مستحق طلبہ و طالبات کی تعلیمی سرپرستی کی جا رہی ہے۔ تقریباً دو ہزارخصوصی معذور بچے بھی علم حاصل کر رہے ہیں۔ صرف مسلمان ہی نہیں ، ہندو اقلیتوں کیلئے بھی ٹرسٹ کی خدمات لاجواب ہے۔
اسکے کچھ پروگراموں میں تعلیمی کفالت، ریسورس رومز پروگرام ، سکریننگ کیمپ، میڈیکل کیمپ، سپورٹس فیسٹیول، عیدگفٹ ، آگاہی و معاونت اصلاحات اورایسے بے شمار منصوبے ہیں جو غزالی ٹرسٹ ایجوکیشن اپنی تمامتر ہمدردیوں، ذمہ داریوں اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے ادا کر رہا ہے۔ اتنے بڑے ادارے کو چلانے کیلئے بے پناہ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وسائل خدا کمال احسن طریقے سے پورا کرتا ہے لیکن ذرا سوچئے کہ بحیثیت انسان کیا ہمارا کوئی فرض نہیں ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ایسے ٹرسٹ انسانی ہمدردی کے مستحق ہیں۔ ہمارے مال میںپہلا حق ایسے بچوں کا ہے جن کے سر پر کوئی ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے۔ یادرکھیں کوئی کتنا ہی طاقتورکیوں نہ ہو لیکن اُسکے سر سے کبھی بھی کفالت والا ہاتھ اٹھ جائے تو وہ یتیم ویسیر ہی کہلاتا ہے۔ ڈرنا چاہئے کہ خدا اپنا شفقت بھرا ہاتھ سر سے نہ اٹھائے۔ اس چند روزہ دنیا میں دولت کے خزانے اکٹھے کرنے کاکیا فائدہ جنہیںانسان اپنے ساتھ قبر میں تک نہیں لے جا سکتا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024