سقوط بغداد کے بعد دخترِ ہلاکو نے شہر کی سیر کے دوران ایک جگہ مجمع دیکھا۔ معلوم ہوا کہ مناظرہ ہو رہا ہے اور کچھ عالم جمع ہیں۔ حکم دیا کہ عالم کو حاضر کیا جائے۔ شہزادی نے سوال کیا کہ کیا تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور کیا تمہارا ایمان نہیں کہ اللہ جسے چاہتا ہے غالب کر دیتا ہے؟ عالم نے جواب دیا بے شک! اللہ جسے چاہتا ہے غالب کر دیتا ہے۔ شہزادی نے بڑی تمکنت سے کہا تو کیا اللہ نے ہمیں غالب نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ ہمیں تمہاری نسبت زیادہ پسند کرتا ہے۔ عالم نے جواب دیا۔ کیا بھڑوں کے ریوڑ کو دیکھا ہے؟ جو جھنڈ سے بھٹک جائیں تو چرواہے نے چند کتے رکھے ہوتے ہیں تو جو بھڑیں اپنے ریوڑ سے الگ ہو جائیں تو کتے ان کے پیچھے دوڑتے ہیں تا کہ واپس لا سکیں۔ تم تاتاری مسلمانوں کے حق میں خدا کے چھوڑے ہوئے کتے ہو۔ جب تک ہم حق پر واپس نہ آئیں گے تب تک خدا تمہیں غالب رکھے گا۔ افسوس! آج بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ہم اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی معمولی سے چھینا جھپٹی کو ہر جگہ بڑی اہمیت دی جاتی ہے لیکن مستقبل کے خطرات سے آگاہ کرنے والی وارننگ کو بھی یکسر نظرانداز کرکے کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ پاکستان جو آبی و زرعی وسائل سے مالامال خطہ ہے لیکن اسے شجر ممنوعہ بنا کر عالمی استعمار کا معاشی غلام بنا دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود آبی وسائل پر بات کرنے اور آنے والے خطرات کے حوالے سے کسی بھی بات کا نظرانداز کر دینا معمول بن گیا ہے۔
اللہ تبارک تعالیٰ نے پانی کو زندگی کا مظہر قرار دیا ہے۔ سندھ کے دوآبے پانی کی اسی فراوانی کی وجہ سے دنیا میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے لیکن جب ہم نے پانی کی قدر نہ جانی بلکہ پانی کو وجہ سیاست بنا لیا تو ذلت ہمارا مقدر بنتی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ پانی کے بے پناہ وسائل رکھنے والا پاکستان مسلسل ناکامیوں کا شکار ہو رہا ہے۔ خصوصا موسم برسات میں جب دریا پوری طغیانی کے ساتھ بہتے ہیں تو ہر طرف تباہی کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ سیلاب کی شدت سینکڑوں ہزاروں بستیوں کو ہی نہیں اجاڑتی بلکہ پوری تہذیب ہی تہہ وبالا ہو جاتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سیلابوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ لگ بھگ چالیس مرتبہ پاکستانی قوم سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئی جس کی وجہ سے بھاری مقدار میں پانی ہی ضائع نہیں ہوا بلکہ ہر سیلاب میں سو پچاس بے گناہ افراد کی ہلاکتیں معمول کی بات رہی ہیں۔ان سیلابوں میں نصف سے زائد سیلاب بڑی تباہی کا موجب بنے۔ ان سیلابوں میں دس ہزار سے زائد بے گناہ افراد موت کے بے رحم ہاتھوں لقمہ اجل بن گئے۔ صرف تین سیلابوں 1950ئ، 1992ء اور 2010ء میں پانچ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں اور کھربوں روپے مالیت کے نقصانات کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ کون سے ہاتھ ہیں جو سیلابوں کی روک تھام کیلئے ڈیم بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔قدرتی آفت ہو تو انسان برداشت کر لیتا ہے لیکن جب علم ہو کہ یہ آفت آنے والی ہے اور اس آفت کو نہ روکا جائے تو اس کی ذمہ داری تمام مقتدر اداروں پر آتی ہے۔ ان تمام افراد اور تنظیموں پر بھی فرد جرم عائد ہوتی ہے جو ان آفات سے بچاؤ کی جانے والی تدابیر کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ ماضی کے وہ واقعات ہیں جن سے آج تک ہم نے سبق نہیں سیکھا بلکہ بڑی ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے کہ ہم ملک بچائیں یا ڈیم بنائیں؟ ایک تھوڑی سے تعداد نے پوری قوم کی ترقی کو یرغمال بنا رکھا ہے اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں! سابق چیف جسٹس آف پاکستان نثار ثاقب نے الحمراء لاہور کی تقریب میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں کالاباغ ڈیم کی اہمیت جانتا ہوں۔ میرے فیصلہ میں واضاحت سے تحریر کیا گیا ہے کہ مخالفت میں کی جانے والی باتوں میں کوئی صداقت نہیں لیکن میں ملک کی سا لمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ ان کی باتوں پر ایک سوال ضرور اٹھتا ہے کہ جب وہ سمجھ گئے تھے کہ کالاباغ ڈیم اس ملک کی ترقی کیلئے انتہائی ضروری ہے اور مخالفت میں کی جانے والی باتوں میں کوئی صداقت نہیں بلکہ انڈیا کا مقصد ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا پروجیکٹ نہ بنے جس سے ملک کی ترقی کو مہمیز ملتی ہو تو ایسے پروجیکٹ کو روکنا بذات خود بھارتی مذموم ارادے کو کامیاب بنانا ہے۔ ایسے مخالف لوگوں کو تو باندھنے کی ضرورت ہے۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا ہے جس نے غیر ملکی ایجنٹوں کو کھلی چھوٹ دی ہو ؟ امسال موسم برسات میں معمول سے کم بارشیں ہوئیں جس کی وجہ سے ڈیموں میں پانی کی صورتحال انتہائی گھمبیر تھی چنانچہ ربیع کی فصل کے حوالے سے بہت تشویش پائی جاتی تھی۔ لیکن اللہ کی مہربانی کے طفیل موسم نے انگڑائی لی اور بادل بھی کھل کر برسے جس کی وجہ سے نہ صرف کھیتوں کی پیاس بجھانے کیلئے آسمان سے پانی برسا بلکہ ڈیموں میں پانی کی سطح میں بھی قابل قدر اضافہ ہو گیا۔ اب ربیع کی فصل کیلئے ہی نہیں بلکہ خریف کی فصل کی بوائی کیلئے بھی پانی کی کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ موسم کی فورکاسٹ کو دیکھتے ہوئے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امسال ترکی سے لے کر پاکستان اور شمالی بھارت کے علاوہ جنوبی چائنا میں بارشیں معمول سے زیادہ ہوں گی۔ پاکستان میں اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس سال بارشیں معمول سے 20% زائد ہوں گی۔ موسم سرما کی ہونے والی شدید بارشوں کی وجہ سے پہاڑوں پر کئی فٹ برف جم چکی ہے جو موسم گرما میں پگھلے گی جو دریاؤں کی روانی میں تیزی کا باعث بنے گی۔ اس کے علاوہ معمول سے 20% زائد ہونے والی بارشوں کی وجہ سے پاکستان میں موجود دونوں ڈیم زیادہ سے زیادہ جولائی تک بھر سکتے ہیں۔ ان حالات میں اگست ستمبر میں موسم کی معمولی سی جولانی بھی پورے ملک میں وہی تلاطم پیدا کر سکتی ہے جو 1950، 1992 یا 2010 کے سیلابوں کی وجہ سے برپا ہوا تھا جس سے ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے تھے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024