ویسے تو پاکستان میں شاید ہی کوئی الیکشن ایسا ہوا ہو جس کے بارے میں ہارنے والے فریق نے یہ نہ کہا ہو کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ راقم کے طالب علمی کے زمانہ میں دسمبر 1970ء میں جنرل یحییٰ خان نے متحدہ پاکستان میں بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کرائے تھے۔ ان انتخابات کے بارے میں عمومی رائے یہ تھی اور اب بھی یہی ہے کہ ملکی تاریخ کے سب سے منصفانہ انتخابات تھے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ یہ الیکشن قومی زندگی کے ایسے موڑ پر منعقد ہوئے تھے جب مشرقی اور مغربی پاکستان میں غلط فہمیاں اور دوریاں اپنے عروج پر پہنچ چکی تھیں۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے اپنے سیاسی حریفوں کا مکمل صفایا کر دیا تھا۔ اس وقت کی فوجی حکومت کا خیال تھا کہ جماعت اسلامی اور دوسری جماعتیں مجیب کی عوامی لیگ کے مقابلے میں خاصی نشستیں جیت لیں گی۔ یہ اندازے غلط ثابت ہوئے۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے جھاڑو پھیر دیا تھا۔ مغربی پاکستان کے انتخابی نتائج خود مسٹر بھٹو کے لئے حیرت کا باعث تھے۔ یہ فیئر اور فری انتخابات پاکستان کے لئے بہت المناک ثابت ہوئے ان کے نتیجہ میں پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔
1977ء میں مسٹر بھٹو کی حکومت نے 7 اور دس مارچ 1977ء کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے جو انتخابات کرائے وہ انتہائی متنازعہ بن گئے۔ بھٹو مرحوم کی اپوزیشن نے جو ان کی مخالف نو جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل تھی مارچ 1977ء کے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا۔ نو جماعتی اپوزیشن پاکستان قومی اتحاد نے 10 مارچ 1977ء کو ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ بھٹو حکومت کے خلاف ایک زور دار احتجاجی تحریک چلی۔ حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات بھی ہوئے لیکن یہ مذاکرات کسی سیاسی سمجھوتے تک نہ پہنچ سکے۔ پیپلز پارٹی کی اس وقت کی قیادت اور اپوزیشن کے وہ لیڈر جو انتخابی تنازعہ کو حل کرنے کے لئے مذاکرات کر رہے تھے ان کا دعویٰ تھا کہ چار جولائی 1977ء کی رات کو پیپلز پارٹی اور پی این اے کے درمیان ملک میں دوبارہ انتخابات کرانے کے لئے سمجھوتہ ہو چکا تھا۔ لیکن فوج نے مارشل لاء لگا دیا۔ ان متنازعہ انتخابات نے مسٹر بھٹو کو تختہ دار تک پہنچا دیا۔
1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کرائے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ان غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس فیصلہ پر جنرل ضیاء الحق نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ اگر اپوزیشن جماعتیں جنہیں جنرل ضیاء الحق نے غیر ملکی دباؤ پر آخری لمحوں میں الیکشن لڑنے کی اجازت دی تھی 1985ء کی اسمبلی میں آ جاتیں تو ملک کی سیاسی تاریخ کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔
1988ء کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر منعقد ہونے تھے۔ جنرل ضیاء الحق ان انتخابات سے پہلے حادثاتی موت کا شکار ہو چکے تھے۔ پیپلز پارٹی نے بینظیر بھٹو کی قیادت میں ان انتخابات میں قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی تھی۔ پنجاب میں بینظیر بھٹو کو اسمبلی میں عددی اکثریت حاصل تھی۔ پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ نادیدہ قوتوں نے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں صوبائی حکومت بنانے سے محروم رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بڑی تعداد میں جوآزاد امیدوار جیتے تھے وہ مسلم لیگ (ن) کے حامی بن گئے۔ شاید اسی لئے نواز شریف آزاد امیدواروں کی جیت سے خوفزدہ ہیں۔ پی پی پی کا دعویٰ ہے کہ نادیدہ قوتوں نے پنجاب میں نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بینظیر بھٹو کی 1988ء میں بننے والی حکومت صرف اٹھارہ ماہ چل سکی۔ ملک کا سب سے بڑا صوبہ اس کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ بینظیر کی وفاقی حکومت کی رٹ صرف اسلام آباد کی حدود تک محدود تھی۔ وفاقی اور پنجاب کی حکومتوں میں ان اٹھارہ ماہ میں اس قدر محاذ آرائی تھی کہ خدا کی پناہ۔ پیپلز پارٹی والے ان دنوں خدشہ ظاہر کر رہے تھے کہ وزیراعظم بینظیر بھٹو کو کسی بھی وقت پنجاب میں گرفتار بھی کیا جا سکتاہے۔ اکتوبر 1989ء میں بینظیر بھٹو کی حکومت کیخلاف متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔ اس تحریک عدم اعتماد کے دوران وفاقی حکومت اور پنجاب کی اس وقت کی حکومت میں جو محاذ آرائی ‘ ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت‘ ریاستی مشینری کے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کے مظاہرے جن لوگوں نے دیکھے وہ اس صورتحال کا تصور کر کے آج بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ بینظیربھٹو نے اپنے خلاف اپوزیشن کی تحریک اعتماد ایک یا دو ووٹوں سے ناکام بنائی تھی۔ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد بینظیر بھٹو حکومت لڑکھڑاتی رہی۔ پانچ اگست 1990ء کو صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر حکومت کو ڈس مس کرکے نوے دن میں نئے انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔
اکتوبر 1990ء میں نئے انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا۔صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر حکومت کے خاتمے کے بعد یہ مشہور بیان دیا تھا کہ ہم نے ’’میت کو غسل دے دیا ہے ‘ اب دفنانا عوام کا کام ہے‘‘ اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ کے اس بیان کو بھی بڑی شہرت ملی کہ انتخابات میں بیرونی امداد کی طرف دیکھنے والوںکو قوم مسترد کر دے۔ پی پی پی کا دعویٰ تھا کہ یہ بیان پیپلز پارٹی کو اکتوبر 1990ء کے انتخابات میں شکست دلانے کے لئے دیا گیا۔
1990ء کے انتخابات میں بینظیر کو قومی اسمبلی کی صرف 45 نشستیں ملی تھیں۔ مسلم لیگ ن کو اکثریت مل گئی۔ نواز شریف ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ ان کے وزیراعظم بننے سے پہلے یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ نادیدہ قوتیں نگران وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کو ہی اگلا وزیراعظم بنانا چاہتی ہیں لیکن نواز شریف نے یہ پلان کامیاب نہ ہونے دیا۔ 1990ء کے انتخابات کے بارے میں بینظیر کا موقف تھا کہ ان انتخابات میں زبردست دھاندلی ہوئی۔ محترمہ نے ان انتخابات کے بارے میں ایک کتابچہ "How the election was stolen" شائع کیا۔ بینظیر نے ان انتخابات کے خلاف تحریک جاری رکھی۔ پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ (پی ڈی ایف) کے نام سے تحریک استقلال سمیت بعض جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر نواز شریف حکومت کے خلاف مہم جاری رکھی۔
1992ء کے شروع میں وزیراعظم نواز شریف کے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور فوج کی قیادت کے ساتھ اختلاف ہوئے یہ اختلافات اپریل 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان‘ وزیراعظم نواز شریف کے استعفوں اور نئے انتخابات کرانے کے فیصلہ پر ختم ہوئے۔ 1993ء کے انتخابات میں بینظیر بھٹو نے ایک مرتبہ پھر حکومت بنائی‘ جس پر بدعنوانی کے الزامات لگے اور 1996ء کے آخر میں محترمہ کے اپنے بنائے ہوئے صدر فاروق خان لغاری نے بینظیر حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ فروری 1997ء میں پھر انتخابات ہوئے جس میں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہو کر وزیراعظم بنے انہوں نے آئین کے آرٹیکل 58 (2) بی کو بینظیر بھٹو کی حمایت کے ساتھ آئین سے نکال دیا۔ نواز شریف کی اس دوسری حکومت کی بقول ان کے ’’نظر نہ آنے والی قوتوں‘‘ یا خلائی مخلوق سے مڈ بھیڑ ہو گئی اور بارہ اکتوبر 1999ء کو مارشل لاء لگ گیا۔
2018ء میں سابق وزیراعظم ایک بار پھر ملکی سیاست میں نظر نہ آنے والی قوتوں کا ذکر کر رہے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا مقابلہ عمران یا زرداری سے نہیں ’’خلائی مخلوق‘‘ سے ہے۔ سابق وزیراعظم سے زیادہ کون بہتر جانتا ہے کہ ’’خلائی مخلوق‘‘ مقابلہ میں ہو تو اسے شکست دینا آسان نہیں ہوتا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024