سچ لکھنے کی سزا ملی‘ زندگی معجزہ ہے: نامہ نگار نوائے وقت اوکاڑہ کا بی بی سی کو انٹرویو
اوکاڑہ (بی بی سی اردو ڈاٹ کام) اوکاڑہ میں حال ہی میں رہائی پانے والے 27 سالہ صحافی حسنین رضا کا کہنا ہے ’مجھے قید کے دوران مختلف طریقوں سے ہراساں کیا گیا تاکہ میں معافی نامے پر دستخط کر کے صحافت کو خیرباد کہہ دوں۔ نہ تو میرے والد نے ایسا کیا اور نہ ہی میں ایسا کروں گا۔ مجھے سچ لکھنے کی سزا ملی اور یہ ایک معجزہ ہے کہ میں آج زندہ ہوں۔ عالمی آزادی صحافت کے دن کے حوالے سے حسنین رضا نے گفتگو کرتے ہوئے اپنی گرفتاری اور رہائی کی تفصیلات بیان کیں۔ انہوں نے کہا جہاں بلوچستان اور خیبر پی کے کے صحافیوں کو ہر وقت جان کا خطرہ لاحق رہتا ہے وہیں پنجاب اور سندھ میں کئی صحافیوں کو اپنے فرائض انجام دینے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑے شہر میں رپورٹنگ کرنا آسان ہے۔ علاقائی رپورٹنگ قدرے مشکل ہے۔ ہم صحافیوں میں بھی طبقات ہیں اور علاقائی رپورٹر چھوٹے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، میری جگہ شہر کا رپورٹر ہوتا تو 23 ماہ قید میں نہ گزارتا۔ حسنین کی ان کے ادارے نوائے وقت نے بھی حمایت کی۔ گرفتار ہوتے ہی حسنین پر 12 مقدمات درج کیے گئے جن میں سے زیادہ تر دہشت گردی سے منسلک ہیں۔ حسنین ان میں سے آٹھ مقدمات میں بری ہوچکے ہیں جبکہ باقی چار مقدمات کی سماعت دہشت گردی کی عدالت میں جاری ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حسنین نے کہا کہ ان کی جان کو اب بھی خطرہ ہے۔’ قید سے باہر آ کر کچھ باتیں واضح ہوئیں جن میں سے ایک بات میں پہلے سے جانتا تھا کہ یہاں صحافی کم اور مخبر زیادہ ہیں۔ دوران قید انہیں آٹھ فٹ کے کمرے میں رکھا گیا اور ساتھ ہی ایک اہلکار بھی کھڑا کر دیا جو انہیں بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ ’مجھے بلاک نمبر سات میں رکھا گیا تھا جو سزائے موت کے قیدیوں کے لیے ہوتی ہے۔ کھانے کے نام پر مرچوں کا سالن اور سخت گرمیوں میں گرم پانی دیا جاتا تھا۔ سردیوں میں پتلا کمبل یا چادر دی جاتی تھی یا پھر میرے منہ پر کالا کپڑا ڈال کر کہا جاتا تھا مختلف جانوروں کی آوازیں نکالو۔ قید کے دوران انہیں پتہ چلا ان کے بھائی کو میونسپل کے محکمے سے یہ کہہ کر نکال دیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے ہمارے لیے مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ حسنین کی دو بہنیں محکمہ تعلیم میں ملازمت کرتی ہیں انہیں بھی مسلسل ہراساں کیا گیا، لعن طعن کی گئی اور بات یہاں تک آ گئی کہ انہوں نے محکمہ چھوڑنے کے بارے میں بھی سوچا لیکن ان کی والدہ نے ایسا نہ کرنے دیا۔ حسنین نے بتایا میرے والد کو 2007ء میں جیل کاٹنے کے دوران ذیابیطس ہو گئی تھی جس کی وجہ سے ان کی بائیں ٹانگ کاٹنی پڑی۔ 2011ء میں مزارعین کے ایک جلسے کے دوران ان کو دل کی تکلیف ہوئی جس سے ان کا وہیں انتقال ہو گیا۔ تب نوائے وقت نے انہیں اپنے والد کی جگہ رپورٹنگ کرنے کی پیشکش کی۔ ان کے بقول اب پہلے جیسی صحافت نہیں رہی۔ صحافت کو مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ہمیں اپنے گھر اور گھر کے لوگوں کے ساتھ ساتھ خود کی بھی حفاظت کرنی پڑتی ہے لیکن سوال یہ ہے اگر صحافی صحافت چھوڑ دے تو پھر کیا کرے؟