شکیل آفریدی کی جیل سے منتقلی، رہائی کی خبریں، چیئرمین سینیٹ نے وزرائے خارجہ، داخلہ کو طلب کر لیا
اسلام آباد (اے پی پی + این این آئی + آئی این پی) چیئرمین سینیٹ سینیٹر صادق سنجرانی نے خارجہ اور داخلہ امور کی وزارتوں سے شکیل آفریدی کی منتقلی اور جیل توڑ کر اسے رہا کرانے کی خبروں کے معاملہ پر وضاحت طلب کرلی۔ جمعہ کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ کافی دنوں سے شکیل آفریدی کی منتقلی کے حوالے سے خبریں آ رہی ہیں کہ اسے کسی خفیہ جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ جیل توڑ کر اسے رہا کرانے کی کوشش کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ کل دفتر خارجہ نے بھی اس حوالے سے بیان دیا۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پیر کو وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ جو اگرچہ اس وقت موجود نہیں، ایوان میں اس صورتحال کی وضاحت کے لئے آئیں۔ چیئرمین نے خارجہ امور اور داخلہ کی وزارتوں کو پیر کو اس معاملے پر وضاحت دینے کی ہدایت کر دی۔ علاوہ ازیں ایوان بالا کے اجلاس میں وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل کی طرف سے مجوزہ پارلیمنٹری کاکس میں کالا باغ ڈیم سمیت کھلے ذہن سے پانی سے متعلقہ تمام معاملات زیر بحث لانے کی تجویز پر سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ کالا باغ ڈیم پر تین صوبوں کی قراردادیں ہیں، ان کو واپس لینے تک اسے کاکس میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی نے وزیراعظم کی طرف سے فاٹا کے حوالے سے کئے گئے اعلانات کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ان کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ فاٹا کے کے پی کے میں انضمام کی پی ٹی آئی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ اس حوالے سے اگر کوئی قانون لایا جائے گا تو پی ٹی آئی اس کی حمایت کرے گی۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سینیٹر گل بشریٰ نے شیرانی اور موسیٰ خیل کی نئی انتخابی حلقہ بندیوں پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پی پی 1 شیرانی کے حوالے سے الیکشن کمشن نے نیا حلقہ بنایا ہے۔ اس سے شیرانی اور موسیٰ خیل کے عوام کی حق تلفی ہوئی۔ کمشن کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں۔ اس فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔ چیئرمین نے کہا کہ کمشن کے فیصلے کے خلاف عدالتیں ہیں، اس حوالے سے مناسب فورم ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر مولابخش چانڈیو نے کہا ہے کہ نواز شریف نے جو بویا وہی کاٹ رہے ہیں، اگر آپ نظریاتی ا نقلابی ہو گئے ہو تو گھبراتے کیوں ہو جو کچھ بویا ہے اس کا آپ نے کچھ کاٹا ہی نہیں۔ سینٹ میں خطاب کرتے مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ میاں نواز شریف کی ہر پیشی پر نہ صرف وزراء ہوتے ہیں بلکہ پورا پروٹوکول ہوتا ہے جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو جب عدالت پیش ہوتی تھیں تو ان کی بغل میں ایک بچہ اور دوسرے کا ہاتھ پکڑا ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پیش کئے جانے والا بجٹ امراء کا بجٹ ہے، سال بعد کہا جاتا ہے کہ مقررہ ہدف حاصل نہیں کر سکے، خسارے کا بجٹ سن سن کر بوڑھا ہو چکا ہوں، ترقیاتی بجٹ میں اضافہ صرف ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس کیلئے بے تحاشہ اضافہ کیا گیا۔ مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ایوان صدر کا بجٹ بڑھانے کا مقصد کیا ہے اور اس عمر میں کتنا کھائیں گے زیادہ کھانا ان کی صحت کیلئے اچھا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں کی ترقی کے بغیر وفاق ترقی نہیں کرے گا، مسلم لیگ نے علاقائی سیاست کی ہے اس لئے این ایف سی ایوارڈ کے بغیر بجٹ پیش کیا، حکومت نے کہا کہ 313ارب دیں گے اور 70ارب روپے اس میں سے کھا گئے، ان کے نزدیک صوبوں کی اہمیت نہیں، این ایف سی ایوارڈ کا تین صوبوں نے بائیکاٹ کیا، بیرونی صوبوں میں اس وقت سابق وزیراعظم میاں نوازشریف صرف اپنے بھائی شہباز شریف کو لے کر جاتے تھے، کیا باقی تین صوبوں کے وزراء اعلیٰ پاکستان کے نہیں تھے، جس طرح ملک کو چلایا جا رہا ہے، اس طرح ملک نہیں چلے گا، ایک صوبے میں دھاندلی سے جیتیں گے اور باقی صوبوں کو غلام بنا سکیں گے، گزشتہ رات جنرل عبدالقیوم کہہ رہے تھے 18ترمیم کا دوبارہ جائزہ لیا جائے، صوبائی خود مختیاری کم کریں گے تو ملک کیلئے بہتر نہیں ہو گا، بلکہ ملک میں مزید انتشار پھیلے گا۔ مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ نواز شریف پیپلز پارٹی کو چور کہتے تھے، اب بین الاقوامی چوری میں پکڑے گئے اور جان نہیں چھوٹ رہی، نواز شریف اپنی ذات کیلئے سیاست میں بدعت نہ شروع کریں، یہی کام چھوٹے صوبوں نے شروع کر دیئے تو جان نہیں چھوٹے گی، اس سیاسی بدعت سے وفاق کمزور ہو گا۔ این این آئی کے مطابق حکومت کی جانب سے ایوان بالا کو بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 27 برسوں کے دوران 988 سے زائد کمپنیوں اور شخصیات نے 4کھرب 30 ارب 6کروڑ روپے سے زائد کے قرضے معاف کرائے ہیں۔ ایک ارب روپے سے زائد قرض معاف کرانے والی کمپنیوں اور شخصیات کی تعداد 19 ہے۔ جبکہ پاکستان اس وقت مجموعی طور پر 28 ہزار ارب روپے سے زائد بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔حکومت کی جانب سے ایوان بالا میں پیش کردہ فہرست کے مطابق 1990سے 2015 تک قرضے معاف کروائے گئے۔ قرض معافی کے معاملے میں عبداللہ پیپرز پرائیویٹ لمیٹڈ نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ جس نے 2015 میں ایک کھرب 54 ارب 84 کروڑ 73 لاکھ روپے کے قرضے معاف کرائے۔ مہران بینک اسکینڈل کے مرکزی کردار یونس حبیب نے 1997میں دو ارب 47 کروڑ روپے، ریڈ کو ٹیکسٹائل کے مالک اور سابق چیئرمین احتساب بیورو سیف الرحمان خان نے 2006 میں ایک ارب 16 کروڑ 67 لاکھ روپے، فوجی سیمنٹ نے 2004 میں پانچ کروڑ روپے سے زائد، سپیریئر ٹیکسٹائل ملز پرائیویٹ لمیٹڈ نے 24 کروڑ 75 لاکھ روپے، سابق رکن قومی اسمبلی سردار جعفر خان لغاری کی چوٹی ٹیکسٹائل ملز نے 2008 میں 30 کروڑ روپے اور سابق سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کی مرزا شوگر ملز نے 2007 میں 7کروڑ روپے کا قرضہ معاف کروایا۔ 2002میں صادق ٹیکسٹائل ملز نے 5کروڑ روپے سے زائد کا قرضہ معاف کروایا جس کے مالکان میں تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری بھی شامل ہیں۔
سینیٹ