عمران خان کے 11 نکات
پی ٹی آئی نے لاہور میں سونامی پلس جلسہ کیا اور کامیاب ترین جلسے کے انعقاد کا دعوٰی کیا جس پر میاں نوازشریف نے بالکل درست کہا کہ ”جلسہ لاہور دا‘ بندہ پشور دا تے ایجنڈہ کسی ہوردا“۔ اس طنزیہ فقرے میں جو آخری جملہ ہے اس سے میں اتفاق نہیں کرتا اور شاید میاں صاحب کو یہاں پہنچانے کی وجہ بھی یہی سوچ ہی ہے جس کی وجہ سے وہ آج ان حالات کا شکار ہیں کیونکہ وہ ہر بات کا ذمہ دار فوج کو قرار دیکر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے حالانکہ یہ طرز عمل درست نہیں۔ عمران کے 11 نکات میں پہلا نکتہ تعلیم کی یکساں فراہمی ہے حالانکہ اس وقت ملک میں 5 معیار تعلیم جاری ہیں اور ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق تعلیم کے حصول کی کوشش کرتا ہے اور ملک میں بچوں کی بہت بڑی تعداد تعلیم کے حصول سے محروم بھی ہے جو نوجوان ڈگریا ں حاصل کر چکے انہیں روایتی تعلیم اور ڈگریوں کا کوئی فائدہ نہیں مل رہا کیونکہ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا نہیں کئے گئے اسی لئے صرف روایتی تعلیم سے کام نہیں چلایا جا سکتا جب تک پرائمری سے میٹرک تک تکنیکی تعلیم بھی میسر نہ ہو اور جب تک ہر نوجوان ہنرمند نہیں ہوگا اس وقت تک روایتی تعلیم سے ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
11نکات میں سے کون سے نکات ہیں جو KPK میں صوبائی حکومت کے دوران پورے ہوئے؟کیا یہ صرف 11نکات ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں؟کیا ان نکات میں سے کئی نکات پر عملدرآمد میں ان کے دائیں بائیں کھڑے لوگ رکاوٹ نہیں؟کئی اہم ترین معاملات پر بات کرنے میں کیوں ہچکچاہٹ ہے؟دُہرے معیار کی سیاست ہی کیوں جاری ہے؟ KPKمیں احتساب کا ادارہ چلنے ہی نہیں دیا گیا اور دعوٰی پورے ملک میں احتساب کا کیا گیا ہے۔ صحت کے معاملے میں11 نکات کو دوسری ترجیح قرار دیا گیا ہے تو KPK میں جب چیف جسٹس ثاقب نثار نے پشاور لیڈی ریڈنگ کا دورہ کیا تو حقیقت حال کھل کر سامنے آگئی۔ صحت کے معاملے میں ایک صوبے میں ہی ایسا کام نہیں کیا جا سکا تو پورے ملک کے ہسپتالوں کی حالت زار درست کرنے کے دعوے تو کئے جا سکتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد بہت مشکل کام ہے۔اس وقت بھی لوڈشیڈنگ ہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس معاملے پر عمران خان نے تو کوئی بات ہی نہیں کی۔PTI لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا دعوی تک نہیں کر پا رہی میرے خیال میں یا تو انہیں جیت کا یقین نہیں یا پھر ان کے پاس نہ تو کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی مناسب ترجیحات کا تعین۔
بڑے آبی ذخائر خصوصاً کالا باغ ڈیم پر ہر پارٹی نے منافقانہ سیاست کی ہے اور ہر پارٹی کا سندھ اور KPK میں اس متعلق اور مو¿قف رہا ہے جبکہ پنجاب میں ان کے موقف میں یکسر تبدیلی آجاتی ہے۔کالا باغ ڈیم پر PTI بھی منافقانہ سیاست ہی کر رہی ہے اس لئے سب سے اہم نکتے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے متعلق مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے اور بڑے آبی ذخائر کی تعمیر تک کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا حالانکہ بھارت سمیت عالمی سازش کے تحت پاکستان کے خلاف آبی جارحیت جاری ہے اور بھارت کی یہ کوشش ہے کہ جب چاہے پاکستان میں قحط سالی پیدا کردے اور جب چاہے سیلابی صورتحال لیکن خود کو جہاندیدہ ‘محب وطن اور نہ جانے کیا کیا کچھ قرار دینے والی ہماری سیاسی قیادت اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے اور نہ ہی اس عالمی سازش کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی تیار ہے۔جرات اور بہادری کے دعوے کرنا اور عملی طور پر ایسے جرات مندانہ اقدامات کرنے میں بہت فرق ہے۔ان میں تو اتنی جرات نہیں کہ کالا باغ ڈیم سمیت بڑے آبی ذخائر کو اپنے منشور میں جگہ دے سکیں۔عملدرآمد تو الیکشن میں فتح کے بعد کرنا ہے۔کالا باغ ڈیم سمیت بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا اور نہ ہی سستی بجلی اور زراعت کیلئے وافر پانی کی دستیابی ممکن ہے۔جس ملک میں بد ترین لوڈشیڈنگ ہو اور مہنگی بجلی سے زراعت و صنعت تباہ ہو رہے ہوں اور قیادت کا دعوی ہو کہ ہم الیکشن جیت کر سیاحت کو فروغ دیں گے۔سیاحت کے فروغ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ترجیحات کے تعین میں ان کا کوئی ثانی ہی نہیں۔
خان صاحب صرف پیسہ جمع کرنا ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔11 نکات میں سب سے زیادہ اس بات کو فوکس کیا گیا کہ ہم میں پیسہ جمع کرنے کی صلاحیت ہے اور لوگ ہم پر اعتبار کرتے ہیں اسی لئے ہمیں اقتدار سے کوئی نہیں روک سکتا۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو جمع کرکے اس قدر حیران کن نکات کے اعلان کا ذرہ بھر بھی شائبہ نہیں تھا اور میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ اس قدر عوام کو اکٹھا کرکے عمران خان ملک کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے جرات مندانہ نکات کا اعلان کریں گے جس میں پہلی ترجیح آبی ذخائر کی تعمیر‘دوسری ہائیڈل پاور جنریشن سے جلد از جلد لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرکے سستی بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔خان صاحب نے جب کسانوں کے حقوق سلب کرنے والوں کی بات کرکے کسانوں کو حقوق دلانے کی بات کی تو میں سمجھ رہا تھا کہ اس خطاب میں عمران خان جرا¿ت کرکے سچ بولے گا اور کسانوں کو 182کے بجائے 140روپے من گنے کی قیمت ادا کرنیوالوں کے نام بھی لے گا لیکن حیرت ہے کہ ان کے دائیں بائیں موجود لوگ ہی کسانوں کے معاشی استحصال کے ذمہ دار ہیں اور ایسے لوگوں کی موجودگی میں وہ کسانوں کو حقوق دلانے کی بات کر رہے ہیں۔ جس طرح تحریک انصاف کا ایک نعرہ ہے کہ ”صاف چلی‘شفاف چلی‘تحریک انصاف چلی“لیکن عملی طور پر اس کے بر خلاف ہے اور جہانگیر ترین نے کسانوں سے گنے کی خریداری کے واﺅچر زپر 182روپے من پر دستخط لئے جبکہ ادائیگی 140روپے من کی گئی۔
ٹیکس کے متعلق بھی مبہم بات کی اور اس متعلق کوئی پروگرام نہیں دیا۔ ٹیکس کے نظام میں کوئی اصلاحات کریں گے؟کس طرح سے ہر شہری کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے؟کرپشن کے متعلق صرف دعوی جبکہ عملی طور پر KPK صوبائی سطح پر کسی سرکاری شخص کا احتساب نہیں کیا۔بیرون ملک سے سرمایہ کاری لانے کے متعلق اپنے پروگرام کا تفصیلی اعلان کرنا چاہئے تھا۔ہر جگہ خطاب میں مخصوص جملے بار بار دوہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ آپ الیکشن 2018ءکا تفصیلی منشور جاری کریں اور اس پر قوم کو قائل کریں نہ کہ آپ اپنے مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنا کر ووٹ مانگیں۔اگر آپ کے مخالفین غلط تھے اور وہ کچھ نہ کر سکے تو آپ کس طریقے سے کیا کیا کچھ کریں گے؟اس متعلق قوم آپ کے خطاب کی منتظر تھی جبکہ توقعات کے بر عکس خطاب سے مایوسی ہوئی۔
وفاق کی مضبوطی اور صوبائی مساوات یہ صرف ایک نکتہ ہی اس قدر وسیع پروگرا م کا حامل ہے لیکن صرف یہ کہنا کہ ہم وفاق مضبوط کریں گے اور صوبائی مساوات رائج کریں گے یہ صرف 2 جملے کہہ کر اس اہم معاملے کو نہیں سمجھایا جا سکا کہ آپ حکمران بن کر اس متعلق کیا پروگرام رکھتے ہیں؟اس متعلق تفصیلی خطاب کے منتظر ہیں۔