ملک کے غدار کے بدلے کوئی ڈیل نہیں ہو سکتی
دفترخارجہ کے ترجمان نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ کسی بھی ڈیل کے بارے میں اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس کے بدلے نہ تو عافیہ صدیقی واپس آرہی ہیں اور نہ ہی حسین حقانی کے حوالے سے بات چل رہی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے بھی اس ضمن میں پاکستان سے ڈیل کی تردید کی ہے۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ملک بدری متعلقہ محکموں کا کام ہے اور یہ کہ محکموں میں قیدیوں کی تجارت نہیں ہوتی۔
کسی اہم خبر کی متعلقہ حلقوں کی طرف سے تردید ہوجائے تو بھی یہ تاثر برقرار رہتاہے کہ کوئی نہ کوئی بات ضرورہے۔ اس خبر کے بارے میں بھی کچھ ایسا ہی تاثر پیدا ہوا۔ کوئی بعید نہیں کہ طرفین نے اپنے اپنے عوام کا رد عمل جاننے کے لئے یہ خبر چلائی ہو۔ جہاں تک شکیل آفریدی کا تعلق ہے وہ ملک کا غدار ہے۔ اس نے امریکیوں کو پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف مدد دی۔ پاکستان اسامہ بن لادن کی ملک میں موجودگی کی تردید کرتا آیا۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان کا کوئی فرد یا ادارہ اسامہ کی ایبٹ آباد میں رہائش یا پاکستان کی موجودگی سے آگاہ نہیں تھا۔ یہ ڈاکٹر شکیل آفریدی تھا جس نے جعلی پولیو مہم کی آڑ میں اسامہ کی ایبٹ آباد موجودگی کا سراغ لگایا اور 2مئی 2011کی شب امریکی کارروائی میں معاون کا کردار ادا کیا جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی سخت بدنامی ہوئی بھارت اور امریکہ نے تو پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست ثابت کرنے کی باقاعدہ مہم چلائی۔ رہ گیا عافیہ صدیقی کا کیس، تو کوئی بھی پاکستانی اسے دہشت گرد نہیں مانتا۔ وہ بے چاری ایک ایسے گناہ کی سزا بھگت رہی ہے جو اس نے کیا ہی نہیں۔ جہاں تک حسین حقانی کا تعلق ہے وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کو مطلوب ہے، یہ امریکہ کے نظام عدل کا امتحان ہے کہ وہ کب تک ایک مجرم کو پناہ دیئے رکھتاہے۔ اقوام متحدہ کا رکن اور جمہوری ملک ہونے کے ناطے یہ تو امریکہ پر لازم ہے کہ وہ حسین حقانی کو ازخود پاکستان کے حوالے کر دے ۔ لہذا کسی کو بھی یہ شک نہیں رہنا چاہیے کہ غدار وطن کو کسی کے تبادلے میں چھوڑ دیا جائے گا۔ کوئی غیرت مند پاکستانی یہ برداشت نہیں کر سکے گا۔