زیر حراست لاپتہ افراد کیس میں حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے
لاپتہ قیدی کیس میں خفیہ اداروں کے سربراہوں کو نوٹس جاری۔ سکیورٹی اداروں کو کسی کی آزادی سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ چیف جسٹس۔ قیدیوں کو غیر معینہ مدت تک تحویل میں رکھنے کا دنیا میں کوئی قانون نہیں ہے۔ ملوث افراد کو جیل بھیج دیں گے، نوکریاں معطل کرینگے۔ سکیورٹی ادارے قانون کے دائرے میں رہ کر کام کریں۔ زیر حراست قیدیوں کو انکے خاندانوں سے ملایا جائے ضرورت پڑی تو گورنر کو بھی بلائیں گے‘دوران سماعت عدالت کے ریمارکس۔ سپریم کورٹ میں اڈیالہ جیل سے لاپتہ ہونیوالے قیدیوں اور حراستی مراکز میں غیر قانونی طور پر رکھے گئے قیدیوں سے متعلق کیس کی سماعت میں ہوم سیکرٹری نے بتایا کہ ان قیدیوں کو ایکشن ان ایڈایکویشن آرڈیننس 2012ءکے تحت گرفتار کیا گیا ہے اور ان کا ٹرائل جاری ہے اگر عدالت آرڈیننس کالعدم قرار دے تو ان قیدیوں کو رہا کیا جا سکتا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ ” ان سے اسلحہ برآمد ہوا ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے۔“ ان قیدیوں کو جیل بھیجا جائے۔موجود ہ ملکی حالات کے پیش نظر ملک دشمن سنگین وارداتوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث جو افراد حکومتی اداروں کی تحویل میں ہیں‘ ان سے قوانین کیمطابق بھرپور تفتیش کرنا سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے جس کے بعد ان کو عدالت میں پیش کرنا بھی انکی ہی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں حکومتی اداروں کو آئین اور قانون کے مطابق اس ساری کارروائی میں ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے جس سے کسی بھی انسان کے بنیادی حقوق سلب نہ ہوں اور انکے بنیادی حقوق پر ضرب نہ پڑتی ہو۔ یہ لاپتہ افراد بہرحال اس ملک کے شہری ہیں اور ان کو یہاں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو دیگر شہریوں کو حاصل ہے۔ انہیں ہر قسم کی قانونی امداد اور اپنے اہلخانہ سے ملنے کا حق ملنا چاہئے جو ان گمشدہ افراد کے بارے میں پریشان ہیں۔ اگر یہ لوگ ملک دشمن اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں تو ان کو سزا دینے کا حق صرف عدالت کو حاصل ہے اس لئے حکومت ان کیخلاف عدالتی کارروائی اور تفتیش کا طریقہ کار آئین و قانون کے مطابق ہی اختیار کرے۔