قابل صد احترام میاں محمد شہباز شریف صاحب آپ نے اپنے گزشتہ دورانیہ بحیثیت وزیرا علی پنجاب صوبائی انتظامیہ کے سربراہ کی حیثیت میں کئی ایسے تاریخی کارنامے سرانجام دئیے تھے جن کے باعث 1999سے لے کر 2008کے انتخابات کے دوران برسر اقتدار فوجی حکمران ہر سطح پر آپ کی انتظامی صلاحیتوں کو مثالی قرار دیتے ہوئے ہمیشہ سراہتے رہے ہیں۔ بعض ناقدین کا خیال تھا کہ آپ کے بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف کے اس دورانیہ میں وزیراعظم ہونے کے باعث آپ کوغیر معمولی اتھارٹی حاصل ہونے کے باعث مشکل ترین انتظامی امور اور ہر منصوبے اور ترقیاتی پراجیکٹ کے راستے میں حائل کوہ گراں سے زیادہ سنگلاخ رکاوٹیں آپ کی ایک پھونک سے غائب ہو جاتی تھیں۔ شائد جزوی طور پر اس میں کچھ سچائی ہولیکن میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ آپ کی مثالی کامیابی کا راز آپ کی لگن شبانہ و روز انتھک محنت اور سب سے بڑھ کر ایک پر خلوص ناقابل بیان پاتال تک گہری جڑیں رکھنے والا غریب عوام سے جذبہ محبت و اخوت تھا اور ہے جس نے اب جب کہ آپ کے بڑے بھائی وزیراعظم نہیں ہیں آپ نے اپنے اصل روپ یعنی خادم پنجاب کی حیثیت میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے زندگی کے ہر شعبے خصوصاًتعلیم صحت کے علاوہ بین الاصوبائی سطح پر قومی مالیاتی ایوارڈ کا برسوں پرانا ناقابل حل مسئلہ جس خوبصورتی سے حل کر دیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اس کامیابی پر تاریخ میں آپ کا نام ہمیشہ اسی طرح عزت سے لیا جائے گا جس طرح آپ کے بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف کا نام بھارت کے مقابلے میں ایٹمی دھماکے پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنا دینے کے تاریخی اعزاز کا باعث بن گئے ہیں۔ اسی طرح یہ تاریخی حقیقت بھی کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ اٹھارویں آئینی ترمیم جو کہ 1973کے آئین کی نشاط ثانیہ ہے آپ دونوں بھائیوں کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کے تاریخی کردار کی مر ہون منت ہے ۔ ان تمام اقدامات کا منطقی نتیجہ تقسیم شدہ مسلم لیگ کا اتحاد ہے جس کی چابی میاں برادران کے ہاتھ میں ہے اور جس کے لئے محترمی مجید نظامی ہر لمحہ اپنی زندگی کا ایک عظیم مقصد بنا کر کوشاں ہیں ۔ بانی قوم حضرت قائداعظم کے ایک جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست کے قیام کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں اس طویل تمہید کے بعد آج کے کالم کے اصل مقصد کی طرف آتا ہوں۔ برطانیہ سے واپسی پر 2مئی کو خادم پنجاب نے لاہور کے علامہ اقبال انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے میاں شہباز شریف صاحب نے قوم کو درپیش طویل لوڈ شیڈنگ کے باعث جس آنے والے بحران کے کالے بادلوں کا ذکر کیا ہے اور اس بحران کے فوری حل کے لئے متبادل تجاویز پر سوچ بچار کرنے کے لئے اسی ماہ میں ایک قومی انرجی کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے ۔ وہ آج کے کالم کا فوری محرک ثابت ہو اہے ۔ جس امر کی طرف میں اشارہ کرنے والا ہوں قارئین کو اس پر تعجب ہو یا نہ ہو لیکن میرے لئے یقینا باعث حیرت ہے کہ پاکستان نیشنل فورم گزشتہ دو ماہ سے نہایت سنجیدگی سے اس ایشو پر غور و خوض کر رہا ہے جس کا میاں شہباز شریف نے برطانیہ سے واپسی پر ذکر کیا ہے۔ چنانچہ چار روز قبل بجلی کی پیداوار کے مختلف متبادل ذرےعوں پر رےسرچ کرنے کے لےے ےہ خاکسار ہائیڈل پراجیکٹس یعنی پانی سے بجلی پیدا کرنے کے بڑے ڈیموں کی بجائے چھوٹے چھوٹے درجنوں ڈیموں کی تعمیر کے ایسے منصوبے جو دو تین سال کے اندر تیار ہو سکیں اورعلاوہ ازیں ہائیڈل کے علاوہ دوسرے نمبر پر بجلی کی پیداوار کوئلے کے ذخائر سے جو وافر مقدار میں پاکستان میں موجود ہیں ایسے منصوبوں کی نہ صرف feasibilityبلکہ زمین پر کامیابی سے فنکشن کرتے ہوئے کسی پراجیکٹ یا پلانٹ کی تلاش کا فریضہ سونپا ۔ ڈھونڈنے والوں کو خدا نئی دنیا بھی عطا فرماتا ہے اور اس کاوش میں امریکہ دریافت ہو اتھا ۔ میری کاوش فوری پھل لائی اور معلوم ہوا کہ خوشاب کے قریب کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا ایک پلانٹ گزشتہ دس برس سے کامیابی سے اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن جس طرح چراغ کے نیچے اندھیرا ہوتا ہے متبادل بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ کی آگاہی حاصل کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی اور میاں شہباز شریف کے برطانیہ سے وطن واپسی سے چند روز پہلے اس خاکسار کا تجسس مجھے کوشاں کوشاں خوشاب لے گیا اور میں نے دو روز پورے پاکستان میں اس واحد پلانٹ کا تفصیلاً دورہ کیا اور تمام متعلقہ انجینئرز اور پلانٹ کے جنرل مینیجر سے وہ معلومات حاصل کیں جو در حقیقت ایک ذمہ دار وفاقی حکومت کا فرض منصبی بنتا ہے ۔ اگر پاکستان میں موجود کوئلے سے پاکستان کے ایسے پلانٹ سو مختلف مقامات پر با ہمت صنعت کار اکتوبر 2008کے انتخابات کے بعد حکومت کی سر پرستی میں لگانے شروع کرتے اور اس طرح تربیلا اور بھاشا اور دیگر بڑے ڈیموں کی منصوبہ بندی کے ساتھ چالیس پچاس مقامی سطح کے چھوٹے چھوٹے ڈیم ہائیڈل پراجیکٹ پر لگاتے جو یقینا ممکن تھا تو آج لوڈ شیڈنگ کی قطعاً ضرورت نہ پڑتی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024